پاکستان نے لارڈز کے تاریخی میدان میں ورلڈ کپ 2019ء کے سلسلے میں کھیلے گئے اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم کو 94 رنز سے شکست دے کر بنگلہ دیش سے گزشتہ میچوں میں ہونے والی 4 مسلسل شکستوں کے سلسلے کو ناصرف روک دیا، بلکہ ورلڈ کپ کی مہم کو نسبتاً اچھے طریقے سے ختم کیا، کیونکہ اس فتح کے بعد پاکستان مسلسل 4 میچ جیت کر ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی عالمی کپ کی تاریخ کی اولین ٹیم بن گئی ہے۔

یہ میچ کھیلے جانے سے پہلے ہی قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدیں تقریباََ دم توڑ چکیں تھیں۔ پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے میچ سے پہلے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کی ٹیم اس آخری میچ میں اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کی پوری کوشش کرے گی اور اگر صورتحال ان کے حق میں ہوئی تو وہ 500 رنز کا ناقابل یقین اسکور کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

اس بیان کو کچھ حلقوں نے سوشل اور روایتی میڈیا پر کچھ اس انداز سے پیش کیا جیسے پاکستان واقعی ناممکن کو ممکن بنانے میں سنجیدگی رکھتا ہے۔ ٹاس جیت کر جب پاکستان نے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو پاکستان کے مداحوں کو ایک امید سی ہوگئی جیسے کوئی معجزہ ہونے جارہا ہے لیکن ابتدائی 7 اوورز میں جب سست روی سے کھیلتے ہوئے صرف 23 رنز بنائے گئے تو حکمت عملی واضح ہوگئی تھی کہ قومی ٹیم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے مقررہ 50 اوورز میں قدم جما کر آہستہ آہستہ ایک ایسے اسکور تک پہنچنا چاہتی ہے جس کا دفاع یقینی بنایا جاسکے۔

مزید پڑھیے: ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف ویسٹ انڈیز کا پلڑا بھاری

کرکٹ کے ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے میں قومی ٹیم کی اس حکمت عملی سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے ’Better safe than sorry‘۔ قومی ٹیم نے آج من و عن اس قول پر عمل کیا اور وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے۔

پاکستان ٹیم نے بابر اعظم، امام الحق اور عماد وسیم کی شاندار بیٹنگ کی مدد سے 9 وکٹوں کے نقصان پر 315 رنز بنائے۔ امام الحق لارڈز کے تاریخی میدان پر سنچری اسکور کرکے ان خوش نصیب کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے جن کا نام Honour بورڈ پر تحریر ہے۔

بابر اعظم 4 رنز کی کمی سے سینچری مکمل کرنے سے محروم رہے — فوٹو: رائٹرز
بابر اعظم 4 رنز کی کمی سے سینچری مکمل کرنے سے محروم رہے — فوٹو: رائٹرز

عماد وسیم نے اختتامی اوورز میں 43 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی — فوٹو: اے ایف پی
عماد وسیم نے اختتامی اوورز میں 43 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی — فوٹو: اے ایف پی

ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں۔ ان کے اِن فارم آل راؤنڈر شکیب الحسن نے 64 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کی بیٹنگ کو سہارا تو ضرور دیا لیکن ان کے آؤٹ ہونے کے بعد بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم 44.1 اوورز میں 221 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔

بنگلہ دیش کی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں توقعات سے زیادہ اچھا کھیل پیش کیا اور وہ اب تک اس عالمی کپ کی واحد ٹیم ہے جس نے 300 سے زیادہ رنز کا کامیابی سے تعاقب کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 300 رنز سے زیادہ بنانے کے باوجود بھی یہ خیال کہیں نہ کہیں موجود تھا کہ ہم یہ میچ ہار نہ جائیں، لیکن یہ آخری میچ چونکہ ان کے لیے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا اس لیے وہ کچھ خاص محنت کرتے دکھائی نہیں دیے۔

لیکن ایونٹ سے باہر ہونے کے بعد سے مستقل یہ باتیں ہر جگہ ہی ہورہی ہیں کہ ہم باہر کیوں ہوئے؟ خراب کارکردگی کی وجہ سے؟ ویسٹ انڈیز کے خلاف بدترین شکست کی وجہ سے؟ سری لنکا کے خلاف میچ میں بارش ہونے کی وجہ سے؟ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف بڑے مارجن سے جیتنے کی پوزیشن کے باوجود ایسا نہ کرنے کی وجہ سے؟ یا پھر آسٹریلیا کے خلاف آخری اوورز میں ہمت ہار جانے کی وجہ سے؟

میں ان تمام ہی باتوں کو درست سمجھتا ہوں، لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست شاید سب سے بڑی وجہ بنی۔ اگر اس میچ میں ہم عزت کے ساتھ بھی ہار جاتے تو آج نیوزی لینڈ کی جگہ ہم سیمی فائنل میں ہوتے۔

لیکن ویسٹ انڈیز اور پاکستان کا ورلڈ کپ میں کچھ خاص تعلق ہے، جو کم از کم پاکستان کے لیے تو کسی بھی صورت اچھا نہیں ہے۔ وہ تعلق کیا ہے، آئیے اس بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔

عالمی کپ کی تاریخ اُٹھائیں تو ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے لیے ہمیشہ ہی لوہے کا چنا ثابت ہوئی۔

  • یہ دونوں ٹیمیں پہلی مرتبہ 1975 کے عالمی کپ میں آمنے سامنے آئیں، اور پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی مضبوط ٹیم کو تقریباََ شکست سے دوچار کردیا تھا لیکن ان کے آخری کھلاڑیوں نے پاکستان کی یقینی فتح کو شکست میں بدل دیا۔
  • دوسری مرتبہ یہ دونوں ٹیمیں 1979ء کے ورلڈ کپ میں سامنے آئیں اور اس مرتبہ بھی فاتح ویسٹ انڈیز کی ٹیم تھی، جس نے یہ میچ 43 رنز سے جیتا تھا۔
  • 1983ء کا ورلڈ کپ تیسرا موقع تھا جب دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ میں مدمقابل ہوئیں اور اس میچ میں بھی ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 8 وکٹوں سے شکست دی جبکہ ابھی میچ میں 68 گیندوں کا کھیل ہونا باقی تھا۔
  • پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ لاہور کے میدان میں 1987ء میں شکست دی تھی۔ لیکن یاد رہے کہ قومی ٹیم نے یہ میچ اننگ کی آخری گیند پر صرف ایک وکٹ سے جیتا تھا۔
  • 1992ء، 2007ء اور 2019ء کے عالمی کپ میں پاکستان نے اپنے ابتدائی میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے اور تمام میں ہی قومی ٹیم کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز نے مقابلہ 10 وکٹوں سے جیتا، 2007ء میں 54 رنز سے اور 2019ء میں تو حد ہی ہوگئی۔ یہ مقابلہ کالی آندھی نے محض 13.4 اوورز میں 7 وکٹوں سے جیت لیا۔
  • 1996ء اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں چونکہ دونوں ٹیمیں الگ الگ گروپوں میں تھی اس لیے ہم ان دونوں ورلڈ کپ میں محفوظ رہے۔
  • 1999ء کا ورلڈ کپ وہ واحد میگا ایونٹ ہے جب پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلا اور وہ جیت لیا۔ یہ میچ قومی ٹیم نے 27 رنز سے جیتا تھا۔
  • 2011ء کا ورلڈ کپ وہ تاریخ میں واحد موقع ہے جب میگا ایونٹ میں قومی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کی ایک نہ چلنے دی اور پہلے کوارٹر فائنل میں کالی آندھی کو محض 112 رنز پر ڈھیر کردیا اور یہ مقابلہ باآسانی 10 وکٹوں سے اپنے نام کرلیا۔
  • لیکن اس کا بدلہ ویسٹ انڈیز نے 2015ء میں قومی ٹیم کو 150 رنز سے ہرا کر سود سمیت واپس بھی لے لیا۔

لیکن بہرحال جتنی ذلت آمیز شکست کا سامنا ہمیں 2019ء کے ورلڈ کپ میں کرنا پڑا وہ شاید کبھی نہیں ہوا، کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیں ایونٹ سے باہر ہونے کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ اس میچ میں تو ایسا لگا جیسے ٹیم بغیر کسی حکمت عملی کے میدان میں اتری ہے اور میدان سے باہر کسی ضروری کام سے جانے کی جلدی ہے۔ پوری ٹیم صرف 105 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

جتنی ذلت آمیز شکست کا سامنا ہمیں 2019ء کے ورلڈ کپ میں کرنا پڑا وہ شاید کبھی نہیں ہوا
جتنی ذلت آمیز شکست کا سامنا ہمیں 2019ء کے ورلڈ کپ میں کرنا پڑا وہ شاید کبھی نہیں ہوا

2011ء کی شکست کا بدلہ ویسٹ انڈیز نے 2015ء میں سود سمیت واپس بھی لے لیا
2011ء کی شکست کا بدلہ ویسٹ انڈیز نے 2015ء میں سود سمیت واپس بھی لے لیا

جب بیٹسمین ناکام ہوجائیں تو باؤلر کوشش کرتے ہیں کہ کچھ اضافی کوشش کرکے ٹیم کو بڑی شکست سے بچا لیں مگر ہماری تو باؤلنگ بھی انتہائی غیر معیاری رہی، جس کی بدولت ویسٹ انڈیز نے یہ ہدف 14ویں اوور میں صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔

مزید پڑھیے: ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کے کارنامے

اس میچ میں ہونے والی شکست نے پاکستان کے نیٹ رن ریٹ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ٹیم کا رن ریٹ پورے ایونٹ میں منفی ہی رہا۔

ورلڈ کپ 2019ء میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں منفی اور مثبت دونوں پہلو موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کھلاڑی، ٹیم منیجمنٹ اور کرکٹ بورڈ اپنی غلطیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کے بجائے تمام صورتحال کا ایمانداری اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں اور مستقبل کے لیے ایک ایسی ٹیم تشکیل دیں جس کی کارکردگی میں تسلسل ہو، جو ٹورنامنٹ کے ابتدائی مقابلوں سے ہی جیت کی راہ پر گامزن رہے اور کسی بھی کرشمے کی امید رکھنے کے بجائے اپنے زورِ بازو سے کامیابی کی منزلیں طے کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں