’آرٹیکل 15: پہلی فلم نہیں جس پر اعتراض کیا گیا ہو‘

16 جولائ 2019
ایوشمن کھرانہ پہلی بار پولیس افسر بنے ہیں—اسکرین شاٹ
ایوشمن کھرانہ پہلی بار پولیس افسر بنے ہیں—اسکرین شاٹ

بھارت میں ذات پات کی تفریق جیسے حساس موضوع پر بنی فلم ’آرٹیکل 15‘ کو گزشتہ ماہ جون کے آخر میں ریلیز کیا گیا تھا اور فلم نے اب تک بھارت بھر سے 60 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی کرلی ہے۔

اگرچہ فلم کو بھارت کے متعدد شہروں میں جزوی پابندی اور لوگوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم مجموعی طور پر فلم نے اچھی کمائی کرکے بڑی بجٹ کی فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

اسی فلم پر بھارت کی اعلیٰ ذات کے ہندو اب تک فلم کی ٹیم سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور فلم کی ٹیم پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیے جانے کا الزام لگایا جایا جا رہا ہے۔

تاہم فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ایوشمن کھرانہ اس سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ان کی فلم پر اعتراض کیا گیا ہو۔

پولیس افسر بننے کا انداز کاپی کیا ہے، ایوشمن کھرانہ—اسکرین شاٹ
پولیس افسر بننے کا انداز کاپی کیا ہے، ایوشمن کھرانہ—اسکرین شاٹ

ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے ایوشمن کھرانہ نے ’آرٹیکل 15‘ کی شوٹنگ کے دوران مشکلات سمیت فلم میں پہلی بار ایک پولیس افسر کا کردار نبھانے پر اپنے تجربے پر بھی بات کی۔

ایوشمن کھرانہ کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 15‘ میں پولیس افسر کا کردار ادا کرنے پر وہ جذباتی ہوگئے اور پولیس کا یونیفارم پہنتے ہیں ان میں تبدیلیاں آگئیں۔

اداکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک بہترین پولیس افسر کا کردار نبھانےکے لیے اپنے پولیس افسر دوستوں سمیت دیگر پولیس افسروں کے اسٹائل اور بولنے کے انداز کو کاپی کرنے کی کوشش کی۔

فلم کی کہانی نچلی ذات کی لڑکیوں کے گینگ ریپ اور ان کی لاشوں کو غائب کرنے کے گرد گھومتی ہے—اسکرین شاٹ
فلم کی کہانی نچلی ذات کی لڑکیوں کے گینگ ریپ اور ان کی لاشوں کو غائب کرنے کے گرد گھومتی ہے—اسکرین شاٹ

انہوں نے فلم کی کہانی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ان کی کسی فلم کی کہانی پر اعتراض کیا گیا ہو۔

ایوشمن کھرانہ کا کہنا تھا کہ انہیں پوری امید ہے کہ انتہائی حساس موضوع پر بنائی گئی ان کی فلم آرٹیکل 15 بھارت میں ذات پات کی تفریق پر زیادہ سے زیادہ بات کرنے پر لوگوں کو آمادہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں راتوں رات تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم ایسے موضوعات پر فلمیں بنانے سے حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان کی فلم بھی بھارت میں ذات پات کے مسائل کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی۔

فلم میں پولیس عملداروں کو بھی ذات پات میں الجھتے ہوئے دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ
فلم میں پولیس عملداروں کو بھی ذات پات میں الجھتے ہوئے دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ

خیال رہے کہ ایوشمن کھرانہ کی یہ فلم ریاست اترپردیش میں پیش آنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں کے ایک سچے واقعے پر بنائی گئی ہے۔

فلم کی کہانی اترپردیش کے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے اچھوت ہندو قبیلے کی 2 نوجوان لڑکیوں کے گینگ ریپ کے بعد ان کی لاشوں کو غائب کرنے سمیت ایک لڑکی کے زندہ غائب کیے جانے کے گرد گھومتی ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے واقعے کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار بھی ذات پات کے درجوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

فلم میں مشکلات کے باوجود ایوشمن کھرانہ کو کیس حل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ
فلم میں مشکلات کے باوجود ایوشمن کھرانہ کو کیس حل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے—اسکرین شاٹ

فلم میں یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے آواز بلند کرنے کو بھی کتنا سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔

فلم کی کہانی اگرچہ سچے واقعے سے لی گئی ہے، تاہم اس میں فکشن کا بھی سہارا لیا گیا ہے اور فلم میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 15 پر عمل ہونے یا نہ ہونے کو دکھایا گیا ہے۔

انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کا آرٹیکل 15 ملک میں ذات پات، رنگ نسل اور صنفی تفریق کی نفی کرتا ہے اور سب کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ملک بھر میں آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کہیں بھی کسی بھی نچلی ذات والے شخص کو کوئی حقوق میسر نہیں، ساتھ ہی فلم میں رنگ و نسل سمیت صنفی تفریق کے معاملات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں