طالبان نے افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کی تردید کردی

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2019
افغان عہدیدار کے مطابق حکومت کا 15 رکنی وفد طالبان سے یورپ میں ملاقات کرے گا — فوٹو: اے پی
افغان عہدیدار کے مطابق حکومت کا 15 رکنی وفد طالبان سے یورپ میں ملاقات کرے گا — فوٹو: اے پی

افغانستان میں طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے متعلق خبروں کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز افغانستان کے وزیر نے آئندہ دو ہفتوں میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا تھا۔

جس کے بعد طالبان کے سینئر عہدیدار کی جانب سے وزیر کے بیان کو مسترد کردیا گیا۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان، افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز صرف اس وقت ہوگا جب غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا جائے گا‘۔

اس سے قبل افغان عہدیدار نے کہا تھا کہ ان کی حکومت پہلی مرتبہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے گی اور یہ مذاکرات آئندہ 2 ہفتے میں منعقد ہوں گے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ایک سال سے طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات ہورہے ہیں لیکن طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے ہمیشہ انکار کیا اور انہیں کٹھ پتلی حکومت قرار دیا۔

مزید پڑھیں: طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے آمادہ کروں گا، عمران خان

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان کے وزیر برائے امن عبدالسلام رحیمی نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ افغان حکومت کا 15 رکنی وفد طالبان سے یورپ میں ملاقات کرے گا۔

ادھر امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد، جو اس وقت کابل کے دورے پر ہیں، نے ٹوئٹ میں کہا کہ جب 'ہمارے اپنے معاہدے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے' تو 'انٹرا افغان' مذاکرات کا ایک اور دور شروع ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ’قومی مذاکراتی ٹیم‘ میں 'سینئر حکومتی عہدیداروں، اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور خواتین شامل ہوں گی'۔

یاد رہے کہ افغانستان میں جاری 17 سال سے زائد عرصے سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کوششوں میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں اس کے طالبان سے کئی مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں اور اس تمام صورتحال میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے اور وہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل امن اور افغان تنازع کے حل کے لیے اپنی کوششیں کر رہا ہے۔

اسی ضمن میں حال ہی میں امریکا کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قبول کریں گے، افغان طالبان

امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کے بعد ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ان کی طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد وہ طالبان سے ملاقات کرکے انہیں براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ چند ماہ قبل طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت افغان صدر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ میں ملاقات کروں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے جبکہ طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جہموریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔

جس کے جواب میں 3 روز قبل افغان طالبان نے کہا تھا کہ اگر انہیں دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو وہ اسے قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان وفد کے چینی حکام سے مذاکرات

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت اور افغان امن عمل میں توجہ کا مرکز بننے والے شہر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ رسمی طور پر پاکستان کی طرف سے دعوت موصول ہونے پر وہاں جائیں گے۔

ترجمان نے کہا تھا کہ ہم خطے کے ہمسایہ ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور ایک اسلامی ملک ہے۔

افغان امن عمل سے متعلق طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتوں سے مذاکرات میں کامیابی کے بعد افغان حکومت سمیت دیگر افغان فریقین سے بھی ملاقات کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں