عمران خان کا طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے رابطہ، کشمیر کی صورتحال پر گفتگو

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
عمران خان نے دونوں رہنماؤں سے بھارتی اقدام کے بعد کی صورتحال پر بات چیت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان نے دونوں رہنماؤں سے بھارتی اقدام کے بعد کی صورتحال پر بات چیت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق کیے گئے حالیہ اقدامات کے بعد مسلم دنیا کے 2 اہم سربراہان رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے رابطہ کیا اور موجودہ صورت حال سے انہیں آگاہ کردیا۔

عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے متعلق بھارت کا غیرقانونی اقدام علاقائی امن اور سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرے کا باعث بنے گا۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سامنے رکھتے ہوئے حق خود ارادیت کی جدوجہد کے لیے کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔

اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ ترکی اس معاملے میں اپنی حمایت جاری رکھے گا۔

عمران خان اور مہاتیر محمد کی گفتگو

قبل ازیں وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر اپنے ملائیشین ہم منصب مہاتیر محمد سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارت کا اعلان اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب

انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بھارت کا یہ غیرقانونی اقدام خطے میں امن و استحکام کی صورت حال خراب کرے گا اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کے حامل دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کو مزید نقصان پہنچے گا۔

ٹیلی فونک گفتگو کے دوران مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ ملائیشیا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے اور وہ رابطے میں رہے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈ لائن پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے منتظر بھی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا ہے اور اس بل پر بھارتی صدر نے دستخط بھی کردیے ہیں۔

بھارت کی جانب سے خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جبکہ لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل تھا اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں