پینے کے پانی میں بھی پلاسٹک ذرات شامل ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت—فوٹو: اے ایف پی
پینے کے پانی میں بھی پلاسٹک ذرات شامل ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت—فوٹو: اے ایف پی

کچھ عرصہ قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)سمیت کچھ ممالک کی تنظیموں کی جانب کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سالانہ دنیا کا ہر بالغ شخص 50 ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔

کینیڈین ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انسان نہ صرف پلاسٹک ذرات کو بطور غذا نگل رہا ہے بلکہ وہ سانس لینے کے دوران بھی پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات کو اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زمین کی ایسی کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہ ہوں، سمندر کی گہرائی سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزایبل کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔

ماہرین نے ماضی میں ہونے والی 26 تحقیقات کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد بتایا تھا کہ زیادہ تر انسان مچھلی کھانے، پانی اور بیئر پینے، پلاسٹک مصنوعات میں پیک نمک، چینی اور مصالحہ جات استعمال کرنے کے دوران پلاسٹک کے ذرات اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی مائکروپلاسٹک پر حال ہی میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ہوا، پینے کے پانی اور غذائی اشیاء میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

چھوٹی جسامت کے پلاسٹک ذرات اس وقت صحت کا مسئلہ نہیں، ڈبلیو ایچ او—فوٹو: یو این ڈی پی پاکستان
چھوٹی جسامت کے پلاسٹک ذرات اس وقت صحت کا مسئلہ نہیں، ڈبلیو ایچ او—فوٹو: یو این ڈی پی پاکستان

ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ پلاسٹک کے استعمال کو ترک کے دنیا کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بتایا تھا کہ اگر غذائی اشیاء اور ہوا میں مائکرو پلاسٹک کی موجودگی اسی طرح بڑھتی رہی تو آگے چل کر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

تاہم اب عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ اس وقت انسانوں کی جانب سے پلاسٹک کے ذرات کو نگلنے سے صحت کے کوئی مسائل پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے اپنی وضاحتی بیان میں ایک بار پھر یاد دہانی کرائی کہ دنیا مائکرو پلاسٹک سے محفوظ نہیں ہے اور لوگ پینے کے پانی کے ذریعے بھی پلاسٹک ذرات نگل رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، جس سے یقینا مائیکرو پلاسٹک جیسے معاملات کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈبلیو ایچ او نے وضاحت کی کہ غذائی اشیاء اور ہوا میں پلاسٹک ذرات پر ابھی مفصل تحقیق ہونا باقی ہے، تاہم دستیاب معلومات اور اب تک کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت انسانوں کی جانب سے پلاسٹک ذرات کو نگلنے کے کوئی نقصانات نہیں ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ اس وقت پینے کے پانی اور ہوا سمیت دیگر ذرائع میں 150 مائکرومیٹرز کی جسامت کے پلاسٹک ذرات پائے جاتے ہیں جو بظاہر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔

ادارے کا کہنا تھا کہ مستقبل میں پینے کے پانی، ہوا اور غذائی اشیاء میں پلاسٹک ذرات کی جسامت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے اضافے سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ اس وقت انسانوں کی جانب سے مائیکرو پلاسٹک کو نگلنا عالمی انسانی صحت کے لیے مسئلہ نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ ایک ہزار مائیکرو میٹر ایک ملی میٹر کے برابر ہوتے ہیں اور ایک ہزا ملی میٹر ایک میٹر کے برابر ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او سمیت دیگر اداروں کے مطابق اس وقت پینے کے پانی، ہوا اور غذا میں جراثیموں کی مانند پلاسٹک کے ذرات شامل ہوچکے ہیں اور ان ذرات کی جسامت 150 مائکرومیٹر یعنی ایک ملی میٹر کے چوتھے حصے کے برابر ہوتی ہے۔

ڈسپوزیبل مصنوعات سے پلاسٹک کے ذرات انسانی غذا میں شامل ہو رہے ہیں، رپورٹ—فوٹو: شٹر اسٹاک
ڈسپوزیبل مصنوعات سے پلاسٹک کے ذرات انسانی غذا میں شامل ہو رہے ہیں، رپورٹ—فوٹو: شٹر اسٹاک

تبصرے (0) بند ہیں