مقبوضہ کشمیر: اسلحہ واپس لینے کے بعد مقامی پولیس کی بھارتی فوج سے جھڑپیں

اپ ڈیٹ 27 اگست 2019
مقبوضہ کشمیر میں پولیس اہلکار بغیر اسلحہ کے خدمات سرانجام دے رہے ہیں — فوٹو: اے پی
مقبوضہ کشمیر میں پولیس اہلکار بغیر اسلحہ کے خدمات سرانجام دے رہے ہیں — فوٹو: اے پی

مقبوضہ کشمیر میں اسلحہ واپس لینے کی وجہ سے مقامی پولیس میں مایوسی پھیل گئی۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ افسران سے بدلہ لیے جانے کے خوف سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مقبوضہ کشمیر کے 30 پولیس افسران نے بتایا کہ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کی حیثیت کو ریاست سے وفاقی اکائیوں میں تبدیل کیا ہے، انہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے اور چند کیسز میں نئی دہلی کی جانب سے انہیں غیر مسلح کردیا گیا ہے۔

ریاستی پولیس فورس کشمیر سے آئینی خودمختاری واپس لیے جانے کے صدارتی احکامات پر حیرت زدہ ہے جس کی وجہ سے افسران کے حوصلے پست ہوگئے ہیں اور اب وہ وفاقی سیکیورٹی فورسز کو رپورٹ کرتے ہیں جو ان کی وفاداری پر اس طرح سوال اٹھاتے ہیں جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں حکومتی پابندیوں کی حمایت پر پریس کونسل انڈیا پر تنقید

ایک افسر کا کہنا تھا کہ 'آخر میں نہ ہم اپنے رہے اور نہ ہی ہم پر اعلیٰ حکام بھروسہ کرتے ہیں'۔

خیال رہے کہ سالوں سے کشمیری پولیس معلومات اکٹھا کرنے اور بھارتی حکمرانی کے خلاف مظاہرین اور مسلح جنگجوؤں کی تفصیلات جمع کرنے میں سب سے آگے رہی ہے۔

کشمیر کی حیثیت واپس لیے جانے سے چند روز قبل ہی خطے میں مزید ہزاروں فوجی تعینات کیے گئے تھے۔

حکام نے انٹرنیٹ، موبائل فون اور یہاں تک کہ لینڈ لائن سروس بھی معطل کردی تھی جس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ایک کروڑ 25 لاکھ کی آبادی ایک دوسرے سے رابطے سے محروم ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر خود حل کرسکتے ہیں، امریکی صدر

ریاستی پولیس کو بھی اس بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔

افسران نے کشمیر میں حالیہ تبدیلیوں کو وفاقی منتظمین کا دھوکا قرار دیا جن کے لیے وہ اپنی برادری میں سماجی ذمہ داریوں کا خطرات لیتے ہوئے خدمات انجام دے رہے تھے۔

کئی پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے محکمے سے جاری اسلحہ بھی مودی کی حکومت کے احکامات سے قبل واپس لے لیا گیا تھا کیونکہ حکام کو خدشہ تھا کہ وہ بغاوت کرسکتے ہیں۔

دو پولیس افسران کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے بعد سے اب تک ریاستی پولیس اور فوجیوں کے درمیان 3 جھڑپ ہوچکی ہیں جن میں دونوں اداروں کے افراد زخمی ہوئے'۔

چند افسران کا کہنا تھا کہ وہ خطے کے نیم خودمختار ریاست سے وفاقی اکائی میں تبدیل ہونے کے بعد سے خطے میں اپنے کردار کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں۔

مزید پڑھیں: مودی کی غلطی سے کشمیریوں کو آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا، وزیراعظم

جہاں بھارتی پیرا ملٹری کے سپاہی چیک پوائنٹس پر رائفلز، شاٹ گنز، آنسو گیس کے کنستر اور ریڈیوز لیے کھڑے ہیں وہیں کشمیری پولیس کے ہاتھوں میں صرف ڈنڈے نظر آرہے ہیں۔

ایک افسر کا کہنا تھا کہ 'آج کل ہم بالکل فارغ بیٹھے ہیں'۔

چند افسران کا کہنا تھا کہ 'ہم یہاں فوجیوں کے کلرک اور ہیلپر بن گئے ہیں، ہم اسلحہ کیوں رکھیں، ہم بھی تو اس ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں'۔

خیال رہے کہ 1989 میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک کا آغاز ہوا تھا تو ابتدائی طور پر کشمیری پولیس نے اس کا مقابلہ کیا تھا تاہم چند سالوں میں ہی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت پر درجنوں پولیس افسران نے تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

بھارتی فوج نے 1993 میں سری نگر میں ٹینک کے ساتھ خصوصی دستے تعینات کیے جس نے کئی افسران کو حراست میں لیا۔

2 سال بعد بھارت نے ایک فورس بنائی جس کا نام اسپیشل آپریشنز گروپ رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'کشمیر پر حالیہ تنازع سے جوہری جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا'

اس فورس پر کشمیری عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے انسانی حقوق پامال کرنے کے الزامات عائد کیے گئے جس میں قتل، تشدد، ریپ اور اغوا برائے تاوان شامل ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لیے جانے سے قبل جب وہاں اضافی فوج تعینات کی گئی تو وادی کی سب سے بڑی تنظیم حزب المجاہدین نے کشمیری پولیس کو نئی دہلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا کہا تھا۔

سری نگر میں ایک پولیس یونٹ کے انچارج افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ہماری تذلیل کی جاتی ہے، پڑوسی ہمیں بھارت کے بوٹ پالشیے کہہ کر پکارتے ہیں جبکہ حکام ہم پر اعتبار نہیں کرتے، یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ (کشمیرکا ) تنازع ختم نہیں ہوتا'۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

علاوہ ازیں 22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

خیال رہے کہ بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں