وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا اور مودی کی غلطی سے کشمیر کے لوگوں کو آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا ہے۔

قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں صرف کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہوں، کشمیر کی صورتحال کیا ہے، ہم نے اب تک کیا اقدامات کیے اور آگے کیا کرنے جارہے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پاکستان کی کشمیر پالیسی کا فیصلہ کن وقت آگیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پوری پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہماری پہلی کوشش تھی کہ ملک میں امن پیدا کریں تاکہ لوگوں کے لیے روزگار، تجارت بڑھائیں کیونکہ ہمارے مسئلے وہی ہیں جو بھارت کے ہیں، وہاں بھی بے روزگاری، مہنگائی، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دونوں ممالک کو مشکلات کا سامنا ہوگا اس لیے ہماری کوشش تھی کہ سب سے دوستی کریں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہم نے قیام امن کے عمل کی کوشش کی کہ وہاں کے مسئلے کا پُرامن سیاسی حل نکل آئے اور یہ سلسلہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے غلطی کی تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے حکومت میں آتے ہی بھارت کو کہا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں ہم آپ کی طرف 2 قدم بڑھائیں گے اور کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیں گے لیکن شروع سے ہی مسائل کا آغاز ہوگیا، بھارت سے مذاکرات کی بات کرتے تو وہ کوئی اور بات شروع کردیتے تھے اور کسی نہ کسی طرح پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانے کا موقع ڈھونڈتے تھے۔

عمران خان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے سمجھا کہ بھارت میں انتخابات قریب ہیں، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مسلمان اور پاکستان مخالف مہم چل رہی تھی، تو ہم پیچھے ہٹ گئے اور اس کے بعد پلوامہ کا واقعہ ہوگیا'۔

انہوں نے کہا کہ پلوامہ سے متعلق بھی ہم نے بتایا کہ کشمیر میں ظلم کی وجہ سے کشمیری نوجوان نے خود کو دھماکے سے اڑادیا تھا لیکن بھارت نے اس واقعے کا جائزہ لینے کے بجائے پاکستان کے اوپر انگلی اٹھائی اور موقع ڈھونڈا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم سے دنیا کی نظر ہٹ جائے اور سارا بوجھ پاکستان پر ڈالا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت نے یہی کیا جبکہ ہم نے کہا تھا کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو فراہم کریں ہم کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا جب بھارت میں انتخابات ہوجائیں گے تو ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی اور شاید بھارتی حکومت بات چیت کے لیے تیار ہوجائے گی لیکن الیکشن کے بعد ہم نے دیکھا کہ بھارت نے پوری کوشش کی پاکستان کو دیوالیہ کیا جائے اور فنانسل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی کوشش کی، تب ہم نے سوچا کہ بھارت سے بات چیت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

'بھارت اپنے بانیوں کے خلاف گیا اور پیغام دیا کہ وہ صرف ہندوؤں کا ہے'

اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ہم دیکھ رہے تھے کہ بھارت اب کیا کرتا ہے کہ اس نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج بھیج کر فیصلہ کیا کہ کشمیر اب بھارت کا حصہ بن گیا جبکہ اس فیصلے سے بھارت نے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کی قراردادوں، آئین، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا بھارت، اپنے بانیوں گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے خلاف گیا، نہرو کے کشمیر کے لوگوں سے کیے گئے وعدوں کے خلاف گیا، یہی نہیں بلکہ اس سیکولر آئین جس کے تحت وہ کہتے تھے کہ ہندوستان سب کا ہے سب برابر کے شہری ہیں اور پاکستان بننا غلط تھا بھارت نے اس سیکولرزم کو بھی ختم کردیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست کو بھارت نے پیغام دیا کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے اور باقی سب دوسرے درجے کے شہری ہیں، جو بی جے پی کے نظریاتی حصے راشتریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا فلسفہ ہے۔

اپنے خطاب میں آر ایس ایس کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آر ایس ایس 1925 میں بنی تھی جبکہ بی جے پی تو ابھی بنی ہے جبکہ نریندر مودی اس جماعت کے رکن رہ چکے ہیں، آر ایس ایس کا نظریہ تھا ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور انگریزوں سے آزادی ملنے سے ہندو راج کا وقت آگیا ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس نظریے میں مسلمانوں سے نفرت موجود تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو ایک عظیم قوم تھی لیکن کئی صدیوں سے مسلمانوں کی حکومت کی وجہ سے وہ عظیم قوم نہیں بن سکی اور اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'دنیا منتظر ہے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھے گا تو کیا ہوگا؟'

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ اسی لیے آر ایس ایس، ہٹلر اور مسولینی (جو کہ فاشسٹ تھے) انہیں بہت عظیم سمجھتے تھے اور آر ایس ایس کے بانی فاشزم اور نسل پرست نظریات کو مانتے تھے، اسی نظریے نے آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کو قتل کیا جبکہ بھارت کی ہی حکومت نے 2 سے 3 مرتبہ آر ایس ایس کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے بھی اسی نظریے کو دیکھ کر تحریک پاکستان میں شرکت کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کی غلامی میں جارہے ہیں اس لیے آپ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے دنیا سے جانے کے بعد آہستہ آہستہ یہ نظریہ بھارت میں پھیلتا رہا، اس نظریے نے بابری مسجد کو تباہ کیا، گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، یہ وہ نظریہ ہے جو سڑکوں پر لوگوں کو پکڑ پکڑ ڈنڈوں سے مارتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی سے پہلے کانگریس کے دورِ حکومت میں بھارتی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ آر ایس ایس کے کیمپوں میں دہشت گرد پیدا ہورہے ہیں، یہ وہ دہشت گرد ہیں جو سڑکوں پر جا کر لوگوں کو مار رہے ہیں، انہوں نے عیسائیوں اور گرجا گھروں پر تشدد کیا اور یہی وہ نظریہ ہے جو بھارت پر حکومت کر رہا ہے۔

'تکبر کی وجہ سے نریندر مودی نے تاریخی غلطی کردی'

قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے اور آر ایس ایس کے نظریے میں یہی فرق ہے، ہمارا نظریہ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، وہ مدینہ کی ریاست ہے اور مدینہ کی ریاست کے اندر میثاق مدینہ ہوا کہ قیامت تک عبادت گاہوں کو تحفظ دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ حضرت علیؓ کا اسلام میں ایک مقام تھا، وہ خلیفہ وقت تھے اور ایک اقلیتی شہری ان سے کیس جیت جاتا ہے، اسلام نے اپنے اقلیتی شہریوں کو اس طرح کا تحفظ دیا تھا، جس کا آج دنیا میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، لہٰذا اگر پاکستانی اپنی اقلیتوں سے ناانصافی کرتا ہے تو وہ اپنے دین اور نظریے کے خلاف جاتا ہے لیکن اگر آر ایس ایس اور بی جے پی اقلیتوں سے ظلم کرتی ہے تو یہ ان کا نظریہ ہے۔

مزید پڑھیں: کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ہر حد تک جائیں گے، آرمی چیف

دوران خطاب وزیراعظم نے کہا کہ نریندر مودی سے بہت بڑی غلطی ہوگئی اور وقت ثابت کرے گا کہ کشمیر کے لوگوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا ہے جبکہ بھارت سے یہ غلطی تکبر میں ہوئی، دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں بڑے بڑے فرعون آئے لیکن تکبر سے انہوں نے ایسی غلطیاں کیں کہ ان کی تباہی ہوئی، ہٹلر اور نپولین 2 بڑی طاقتیں تکبر سے تباہ ہوئیں۔

عمران خان نے کہا کہ تکبر کی وجہ سے نریندر مودی نے تاریخی غلطی کی ہے، انہوں نے سوچا تھا کہ یہ کشمیریوں پر اتنا تشدد کریں گے کہ وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے اور دنیا کچھ نہیں کہے گی،دوسرا منصوبہ ان کا یہ تھا کہ وہ کہیں گے آزاد کشمیر سے دہشت گرد آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہم یہاں دہشت گرد مارنے کے لیے آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں پوری اطلاع مل چکی تھی کہ بھارت نے جس طرح پلوامہ کے بعد آزاد کشمیر میں بالاکوٹ پر حملہ کی کوشش کی تھی، اسی طرح کا حملہ کرنا تھا اور دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹا کر پاکستان کی طرف کردینی تھی۔

’ہم 2 چیزوں میں کامیاب ہوگئے‘

انہوں نے کہا کہ ہم 2 چیزوں میں کامیاب ہوگئے، ہم نے ایک دم اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا، مختلف ممالک کے سربراہان، ان کے سفارت خانوں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بات کی، انسانی حقوق کی تنظیموں کو پیغام دیا جبکہ سلامتی کونسل نے 1965 کے بعد پہلی مرتبہ کشمیر پر اجلاس بلایا، جس سے یہ ہوا کہ وہ مسئلہ جس پر دنیا میں کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اسے بین الاقوامی تنازع سمجھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بین الاقوامی میڈیا کو کئی مرتبہ بتایا، جس پر مقبوضہ کشمیر کو بین الاقوامی میڈیا میں کوریج ملی جبکہ مودی سمجھتا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا، بھارت کا خیال تھا کہ آزاد کشمیر میں حملہ کرکے کہیں گے کہ یہاں سے دہشت گرد آرہے ہیں، ہم نے فوری طور پر پوری دنیا اور تمام سفارت خانوں کو بتادیا کہ بھارت کیا کرنے جارہا ہے، ہماری فوج بھی پوری طرح تیار ہوگئی اور اب ان کے لیے ایسا کچھ کرنا مشکل ہے۔

عمران خان نے اپنے خطاب میں 5 اگست کے بعد اپنا کردار ادا کرنے اور مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اٹھانے پر پاکستانی میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کو آر ایس ایس کے نظریے سے متعلق سمجھ بوجھ آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی مغرب میں، بھارتی میڈیا پر اتنی تنقید نہیں ہوئی جتنی آج ہورہی ہے ہم دنیا کو بار بار بتائیں گے کہ جیسے ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھا وہاں کیا ہوا۔

دوران خطاب انہوں نے کہا کہ ہم سب فیصلہ کریں کہ اس مسئلے پر ساری قوم نے کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 370، 35 اے کا خاتمہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، وزیر خارجہ

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ میں کشمیر کا سفیر بنوں گا، کشمیر کے حالات، پیغام اور صورتحال کو دنیا اور بین الاقوامی میڈیا میں بتاؤں گا، جن ممالک کے سربراہان سے بات ہوئی ہے میں نے انہیں آگاہ کیا ہے اور جن سے بات ہوگی انہیں بھی بتاؤں گا کہ ہمارا مقابلہ کس سے ہے، یہ کوئی عام حکومت نہیں بلکہ ایک خوفناک نظریے پر چل رہی ہے جس نے پہلے دنیا میں بہت تباہی پھیلائی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں 27 ستمبر کو اپنی تقریر میں پوری دنیا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق بتاؤں گا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں کہ مسلمان ممالک کچھ نہیں کررہے، اگر کئی مسلمان حکومتیں مجبوری یا تجارت کی وجہ سے آج ساتھ نہیں دے رہیں تو بعد میں ہمارا ساتھ دیں گی، بوسنیا میں جب مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو شروع میں کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں تھا لیکن میڈیا کی وجہ سے حکومتیں ساتھ دینے پر مجبور ہوئیں۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ میں، ہمارے سفارت خانے، بیرون ملک پاکستانی، کشمیری، انسانی حقوق کی تنظیمیں سب اس مسئلے کو اٹھائیں گے اور تمام فورمز پر بتائیں گے کہ 80 لاکھ کشمیریوں پر کس طرح کا ظلم ہورہا ہے۔

’دنیا ہمارے ساتھ دے یا نہیں پاکستان ہر حد تک جائے گا‘

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ کشمیر کے ساتھ دنیا کھڑی ہو یا نہ ہو پاکستان کی حکومت اور عوام کھڑی ہو اور ساری قوم پیغام دے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر ہفتے میں ایک دن پوری قوم، ہمارے اسکولز، یونیورسٹیز اور دفاتر جانے والے افراد ایک آدھے گھنٹے کے لیے نکلیں گے اور کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائیں گے جس سے متعلق آگاہ کیا جاتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس جمعے ( 30 اگست کو) دوپہر 12 سے 12:30 تک جہاں بھی ہوں کام روک کر آدھا گھنٹہ عوام کے ساتھ نکلیں اور بتائیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ جب تک کشمیریوں کو آزادی نہیں ملتی ہم نے ان کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات، مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش

عمران خان نے کہا کہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے اجلاس تک دنیا کو بتانا ہے کشمیریوں کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے اور کشمیریوں کو یہ بتانا ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے آخری پتہ کھیل دیا ہے اس کے بعد اب وہ کچھ نہیں کرسکتا، اب ہم کریں گے اور دنیا کرے گی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ انہوں نے کشمیر کے لوگوں سے ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کرنے کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا کہ کشمیری بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ لیکن انہیں وہ حق نہیں دیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ پر ذمہ داری ہے کہ اب کشمیر میں جو ظلم ہورہا ہے اور جو ظلم ہونے جارہا ہے کیا وہ کمزور کی مدد کریں گے بدقسمتی سے اب تک اقوام متحدہ طاقت ور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ سوا ارب مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو اقوام متحدہ ان کی مدد کرے گی یا نہیں کیا بڑے بڑے ملک صرف اپنی مارکیٹس کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے؟

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی عوام کا کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی

انہوں نےکہا کہ نریندر مودی کی حکومت جس نظریے پر چل رہی ہے یہ مسئلہ جنگ کی طرف چلا گیا تو یاد رکھیں کہ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہے جوہری جنگ میں کوئی بھی نہیں جیتے گا صرف یہاں تباہی نہیں ہوگی بلکہ دنیا پر بھی اثر پڑے گا۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ عالمی برادری، سپر پاورز اور بڑے ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، دنیا ہمارے ساتھ آئے یا نہیں پاکستان تو ہر حد تک جائے گا ہر سطح پر آخری سانس تک کشمیریوں کا ساتھ دیں گے۔

قبل ازیں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر آج قوم سے خطاب کریں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان آج قوم سے خطاب کریں گے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر قوم کو آگاہی دیں گے۔'

بعد ازاں ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم شام ساڑھے 5 بجے قوم سے خطاب کریں گے۔'

یاد رہے کہ دو روز قبل گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ہمراہ گورنر ہاؤس لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ آئندہ ہفتے وزیراعظم عمران خان قوم سے خطاب کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے، بھارت نے وادی میں ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جبکہ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ کشمیر کاز کی حمایت اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ترجمانی گروپ تشکیل دیا ہے جس کے ہفتہ وار اجلاس کی صدارت وزیراعظم خود کر رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرکے حریت قیادت اور سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر کے گھروں یا جیلوں میں قید کردیا تھا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں کرفیو اور پابندیاں چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہیں اور مسلسل 22 روز کے لاک ڈاؤن سے خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

فورسز کی جانب سے سختیوں اور پابندیوں کے باوجود کشمیری عوام کی بڑی تعداد وادی کے مختلف علاقوں میں بڑے مظاہرے کرچکی ہے، مظاہروں کے دوران شیلنگ اور پیلٹ گن کے چھروں سے درجنوں افراد زخمی جبکہ ہزاروں گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

کشمیر کی صورتحال پر پاکستانی اقدامات

پاکستان، مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے یکطرفہ اقدام، مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور نہتے عوام پر مظالم کی ہر سطح پر مذمت کر رہا ہے اور اس نے عالمی برادری سے بھارتی مظالم رکوانے میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان بھی بھارت کے مظالم کو اجاگر کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے کئی بار بیانات جاری کر چکے ہیں۔

مقبوضہ وادی کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان نے یوم آزادی کو 'یوم یکجہتی کشمیر' کے طور پر منایا تھا جبکہ 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی 'یوم سیاہ' کے طور پر منایا گیا۔

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔

22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کرسکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں