امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہواوے کو امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی نہ دینے کے انتباہ سے بہت پہلے ہی اس چینی ٹیلی کام کمپنی نے امریکی سپلائرز پر انحصار کرنے کے لیے تحقیق کے لیے سرمایہ لگانا شروع کردیا تھا۔

اور ہواوے کے بانی کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں نے کمپنی کو نقصان پہنچانے کی بجائے زیادہ سخت جان بنادیا ہے جو اب اپنی اہم ترین مصنوعات کے وسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ہواوے ٹیکنالوجیز لمیٹڈ دنیا میں سام سنگ کے بعد دوسری بڑی اسمارٹ فون کمپنی ہے اور فون نیٹ ورکس کے سوئچنگ گیئر بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے جس کے آلات 50 میں سے 45 بڑے فون کیرئیرز استعمال کررہے ہیں۔

اب ہواوے 5 جی ٹیکنالوجی کی قیادت بھی سنبھالے ہوئے ہے اور نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی صرف تیز تر انٹرنیٹ نہیں بلکہ خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی گاڑیوں اور دیگر مستقبل کی مصنوعات کو بھی سپورٹ فراہم کرے گی۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب کی جانب سے سیکیورٹی تحفظات ظاہر کرکے فائیو جی کو سیاسی طور پر حساس موضوع بنایا گیا اور امریکا کا دعویٰ ہے کہ ہواوے ممکنہ طور پر چین کو جاسوسی میں مدد دیتی ہے، جس کی تردید یہ کمپنی کرچکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کسی قسم کے شواہد فراہم نہیں کیے۔

ہواوے کو اس وقت کچھ اقسام کی امریکی ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہے خاص طور پر اینڈرائیڈ فونز کے لیے گوگل سروسز کی، مگر انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق چینی کمپنی تیزی سے خودانحصاری کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ اس نے گزشتہ دہائی کے دوران تحقیق اور ڈویلپمنٹ کے لیے 65 ارب ڈالرز خرچ کیے ہیں۔

اے پی سے بات کرتے ہوئے اسٹاک ہوم کی ریسرچ فرم نارتھ اسٹریم کے بیگنٹ نورڈسٹروم نے کہا کہ اس کمپنی کی حکمت عملی ہے کہ وہ مکمل طور پر امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار ختم کردے اور متعدد شعبوں میں وہ خود انحصاری حاصل کربھی چکی ہے۔

رین زین گئی نے 1987 میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی اور وہ ایک انٹرویو میں تسلیم کرچکے ہیں کہ امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے (جس کے بعد ہواوے سے کاروبار کے لیے امریکی کمپنیوں کو حکومتی اجازت درکار ہوگی) اور ٹیکنالوجی بشمول گوگل سروسز تک رسائی نہ ملنے پر فونز کی فروخت متاثر ہوسکتی ہے۔

رین زین گئی اور کمپنی کے دیگر عہدیداران کے مطابق آئندہ 2 برسوں کے دوران فونز کی فروخت کی مد میں 20 سے 30 ارب ڈالرز تک کمی کا سامنا ہوسکتا ہے مگر کمپنی پھر ابھر کر سامنے آئے گی۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

رین زین گئی کے مطابق 'جب ہواوے کو لسٹ میں شامل کیا گیا تو انہیں توقع تھی کہ ہواوے ختم ہوجائے گی، مگر ایسا ہوا نہیں بلکہ وہ زیادہ بہتر ہوگئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اینڈرائیڈ کا استعمال اور امریکی سپلائرز کے ساتھ کام کرنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم حالات سے نمٹنے کے لیے کمپنی نے اگست میں اپنا ہارمونی او ایس آپریٹنگ سسٹم متعارف کراتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اینڈرائیڈ فونز کو اس پر سوئچ کردیا جائے گا۔

انڈسٹری ماہرین کے مطابق یہ کمپنی مغربی ڈویلپرز کے ہم پلہ ہوتی جارہی ہے اور ہواوے نے ایک بیان میں بتایا کہ 2015 سے وہ دیگر کمپنیوں سے اپنی ٹیکنالوجی کے استعمال کے عوض 1.4 ارب ڈالرز فیس لے چکی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ 2009 سے اس نے 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ اپنے آلات تیار کرسکے اور امریکی ٹیکنالوجی کو استعمال نہ کرنا پڑے۔

کمپنی کے بانی کے مطابق 'اب ڈیوائسز لگ بھگ ہمارے اپنے پرزوں پر مشتمل ہوتی ہیں'۔

ہواوے ان سیکڑوں کمپنیوں میں سے ایک ہے جو فائیو جی فونز اور دیگر ڈیوائسز تیار کررہی ہیں اور 2 مارکیٹوں میں تو وہ واحد کمپنی ہے۔

ہواوے نے اگست میں چین میں اپنا پہلا فائیو جی فون میٹ 20 ایکس پیش کیا تھا جس میں کیرین 980 پراسیسر اور بالونگ 5000 موڈیم دیا گیا تھا جو کہ ہواوے کی ذیلی کمپنی ہائی سیلیکون کے تیار کردہ تھے۔

یہ ذیلی کمپنی لوئر اینڈ فونز اور سرورز کے لیے بھی چپس تیار کرتی ہے۔

ہواوے کی جانب سے اکتوبر میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے لیے بھی پراسیسر چپس متعارف کرائی جارہی ہیں جو کہ خودکار ڈرائیونگ والی گاڑیوں اور دیگر ڈیوائسز کے لیے ہوگی جو کہ برطانوی چپ ڈیزائنر کمپنی اے آر ایم لمیٹڈ کی ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگا۔

اے آر ایم نے رواں سال جولائی میں کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کے بعد وہ ہواوے سے اپنے تعلقات منقطع کرسکتی ہے جس کے بعد کمپنی کے لیے ایسے سپلائرز کو تلاش کرنے کا چیلنج ہو جس کا امریکا سے کوئی تعلق نہ ہو۔

اے آر ایم کے مطابق وہ ہواوے سے تعلق کے حوالے سے امریکی محکمہ تجارت سے مسلسل رابطے میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں