حملوں میں ایران کا کردار سامنے آیا تو جواب دیں گے، سعودی عرب

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2019
عادل الجبیر نے مخصوص کارروائی کے تاثر کو مسترد کردیا—فائل/فوٹو: ڈان
عادل الجبیر نے مخصوص کارروائی کے تاثر کو مسترد کردیا—فائل/فوٹو: ڈان

سعودی عرب نے تیل کی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اگر ایران کا کوئی کردار سامنے آیا تو جواب دیں گے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر برائے خارجہ امور عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ اگر تحقیق میں تصدیق ہوجائے کہ حملوں کا ذمہ دار ایران ہے تو ریاض مناسب قدم لے گا۔

عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ 'سعودی عرب اپنی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تحقیق کی بنیاد پر مناسب اقدامات کرے گا'۔

رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر نے ایران کے خلاف کسی قسم کی مخصوص کارروائی کے تاثر کو رد کردیا۔

مزید پڑھیں:ایران پر جارحیت کرنے والے کو تباہ کردیں گے، سربراہ پاسداران انقلاب

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ یہ حملہ یمن سے نہیں ہوا یہ شمال سے آیا تھا تاہم تفتیش اس کو ثابت کرے گی'۔

قبل ازیں ایران کی پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر کسی نے بھی ایران پر حملے کی غلطی کی تو ہم اس کو تباہ کردیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے ہر کسی کو ہم نشانہ بنائیں گے اور اس کی ذمہ داری بھی لیں گے اور ایران کے پاس فوج کی عملی صلاحیت موجود ہے'۔

کسی بھی ممکنہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایران اپنے دشمن کی جانب سے کسی قسم کی اسٹریٹجک غلطی دہرانے کے حوالے سے پریشان نہیں اور کسی بھی قسم کی صورت حال کے لیے تیار ہیں'۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'جو لوگ چاہتے ہیں کہ زمین میدان جنگ بن جائے وہ تیار ہوجائیں، ہم کسی کو بھی اپنی سرزمین پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملے میں ایران براہ راست ملوث ہے، امریکا

پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر نے کہا کہ 'خیال رکھیں ایک مختصر جارحیت مختصر نہیں رہے گی کیونکہ ہم اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جب تک جارحیت کرنے والے ناکام اور تباہ نہیں ہوتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کسی بھی حملہ آور کے لیے محفوظ جگہ نہیں چھوڑیں گے'۔

خیال رہے کہ امریکا اور سعودی عرب دونوں ممالک نے تیل برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو پر حملے کا الزام ایران پر عائد کیا تھا تاہم ایران نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی تاہم سعودی حکام نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے ہوا۔

مزید پڑھیں:تیل کی تنصیبات پر حملے یمن سے نہیں ایران سے ہوئے، سعودی عرب

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے 15 ستمبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'سعودی عرب پر ہونے والے تقریباً 100 حملوں میں ایران ملوث ہے جبکہ روحانی اور جواد ظریف سفارت کاری میں مصروف رکھتے ہیں'۔

مائیک پومپیو نے الزام عائد کیا کہ کشیدگی ختم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایران نے ’دنیا کی توانائی سپلائی‘ پر حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرامکو کے دونوں پلانٹس پر ہونے والے حملوں کے یمن کی حدود سے ہونے کے شواہد اب تک نہیں مل سکے ہیں۔

بعد ازاں سعودی عرب کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی سمیت دیگر حکام نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ حملہ یمن سے نہیں ہوسکتا۔

کرنل ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ ’ایرانی ڈیلٹا ونگ نے کروز ڈرون اور کروز میزائل سے حملے کیے ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'حملہ شمال کی جانب سے کیا گیا اور اس پر کوئی سوال ہی نہیں ہے کہ حملوں کو ایران کی معاونت حاصل تھی، یہ حملہ یمن کی جانب سے نہیں کیا جا سکتا'۔

تبصرے (0) بند ہیں