مردان اور ایبٹ آباد میں 'چائلڈ پروٹیکشن کورٹس' کا افتتاح

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2019
رواں برس 16 مارچ کو پشاور میں پہلی چائلڈ پروٹیکشن  کورٹ کا افتتاح کیا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز
رواں برس 16 مارچ کو پشاور میں پہلی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا افتتاح کیا گیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز

مردان: پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے مردان اور ایبٹ آباد کے اضلاع میں 2 چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کا افتتاح کردیا۔

افتتاحی تقریب میں بچوں کے سماجی کارکن، جوڈیشل حکام، وکلا اور سول سوسائٹی کے رہنما نے بھی شرکت کی۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن عدالتیں قائم کرنے کی تجویز مسترد کردی

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پہلے مردان پھر ابیٹ آباد میں چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کا افتتاح کیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ دونوں نئی کورٹس کا قیام خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 اور جووینائل جسٹس ایکٹ 2018 کے تحت عمل میں لایا گیا۔

علاوہ ازیں 16مارچ کو پشاور میں پہلی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا افتتاح کیا گیا تھا۔

اعلیٰ عدالت نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج فریال ضیا مفتی اور سید افتخار شاہ کو بطور پریزائیڈنگ افسر بالترتیب مردار اور ایبٹ آباد چائلڈ کورٹس میں تعینات کیا۔

مزیدپڑھیں: پشاور ہائی کورٹ: خلاف ضابطہ فرائض پر جوڈیشل افسران برطرف

اس ضمن میں گروپ ڈیولپمنٹ پاکستان (جی ڈی پی) کے رابطہ کار افسر عمران نے ڈان کو بتایا کہ رواں برس ستمبر میں حقوق اطفال و انصاف سے متعلق 24 دیگر جوڈیشنل افسران سمیت 12 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور ایک جوڈیشنل مجسٹریٹ، 4 سرکاری افسران اور 16 پراسیکیوٹرز کو ٹریننگ دی گئی۔

اس ضمن میں پشاورہائی کورٹ کے رجسٹرار خواجہ وجیہہ الدین نے کہا کہ صوبے میں 3 چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا قیام محض ابتدا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’عدلیہ پرعزم ہے کہ پہلے مرحلے میں تمام ڈویژنل ہیڈکواٹرز اور دوسرے مرحلے میں تمام ضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن کورٹس قائم کی جائیں گی‘۔

خواجہ وجیہہ الدین نے بتایا کہ ’حکومت نے ہائی کورٹ کی تجویز مسترد کردی جس میں کہا گیا تھا کہ ہر ضلع کی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ میں ججز کے لیے اضافی نشت مختص کی جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی نے چائلڈ پروٹیکشن بل کی منظوری دے دی

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون نومبر 2018 میں منظوری اور قانون سازی کے لیے حکومت کو بھجوایا گیا تھا جس کا مقصد ضلعی عدالتوں کو حکومت سے مکمل طور پر علیحدہ کرنا اور اس میں عدالتی عملے کے لیے ایک سروس اسٹرکچر کی بھی تجویز دی گئی تھی۔

تاہم حکومت نے 8 ماہ بعد یاد دہانی کے نوٹسز ارسال کرنے پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کردیا تھا۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ پشاور چائلڈ پروٹیکشن کورٹ نے 243 بچوں کے مقدمات کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں سے متعلق 137 مجرمانہ مقدمات ٹرائل کے لیے مخصوص کیے گئے، جنسی بدفعالی سے متعلق 77 مقدمات میں ضمانت دی گئی، بچوں پر تشدد کے 10 مجرمان کو سزا ہوئی، 6 جوونیائل ملزمان کو بری کیا گیا اور 16 کو سزا ہوئی۔

واضح رہے کہ پاکستان، اقوامِ متحدہ کے کنوینشن برائے حقوق اطفال کا دستخط کنندہ ہے جس کے تحت بچوں کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں