ججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں 'سیف گارڈز' ہیں، وکیل جسٹس قاضی فائز

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2019
جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے صحافی عبدالوحید ڈوگر کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ 'سیف گارڈز' ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے اور دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی درخواستیں مارچ میں دائر کی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو ایک شخص عبدالوحید ڈوگر نے خط لکھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کسی بھی جائیداد کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ اس خط پر فون نمبر اور پتہ تک درج نہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 'جسٹس قاضی فائز کے خلاف کیس کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے'

منیر اے ملک نے بتایا کہ 10 مئی کو اے آر یو نے وزیر قانون کو ایک خط لکھا، جس میں ان سے موقف مانگا گیا، اس دوران پہلی مرتبہ نام سامنے آئے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اے آر یو کیا ہے، یہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں کیوں ہے؟ ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق تحقیقات اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی وجہ سے شروع ہوئیں، کیا آپ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت عدالت کو بتا سکتے ہیں، جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس یونٹ میں کوئی بھی سول سرونٹ نہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کرکے دستاویز سامنے رکھیں اور الزام لگائے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے اور انہوں نے اپنے اثاثوں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں، ساتھ ہی انہوں نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو بتایا کہ کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن انہوں نے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیے۔

دوران سماعت دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو نے کہا کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈپارٹمنٹ کی ایک نقل فراہم کی، 8 مئی کو اس یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کے بارے میں ذکر ہے اور بعد ازاں 10 مئی کو ایف آئی اے کی ریکوری یونٹ والوں سے ملاقات ہوئی۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں درخواست گزار کی اہلیہ کا نام اور اسپین کی شہریت سامنے آئی، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ویزا درخواست کی وجہ سے یہ نام سامنے آیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو 5 سال کا ویزہ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت عدلیہ کو تابعدار بنانا چاہتی ہے، جسٹس قاضی فائر عیسیٰ

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا نام ڈوگر کو کیسے معلوم ہوا؟ میرا کہنا ہے کہ کیسے ایک جج کے خلاف تحقیقات شروع کی جاسکتی ہیں، کل پھر ایک ایس ایچ او بھی درخواست پر کارروائی شروع کر دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ 'سیف گارڈز' ہیں، اس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ججز کے حوالے سے 2 فورمز ہیں، جو رائے دے سکتے ہیں۔

عدالتی ریمارکس پر جسٹس منیر اے ملک نے کہا کہ شکایت وصول کرنا، ثبوت اکٹھا کرنا اور ریفرنس فائل کرنا مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے ہوئے ہیں، اس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر اجازت کے جج کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں۔

ساتھ ہی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے تمام معلومات فراہم کیں۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہیں، جس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ وحید ڈوگر کو کیسے معلوم ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا یورپین نام کیا ہے؟ ہوسکتا ہے وحید ڈوگر کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں ہوں۔

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ آن لائن پراپرٹی لندن لینڈ اتھارٹی سے لے سکتے ہیں، اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ صرف پلاٹ کا پتہ لگ سکتا ہے، کس کے نام پر ہے یہ پتہ نہیں لگ سکتا۔

منیر اے ملک کے جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ پھر کیسے اس پراپرٹی کے بارے میں معلومات ملیں؟ اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ یہ سب درخواست گزار اور ان کے خاندان کا پیچھا کرکے معلومات لی گئیں۔

اپنے دلائل کو جاری رکھتے ہوئے منیر اے ملک نے کہا کہ 27 اکتوبر 2018 کو نیویارک ٹائمز کی شائع ہونے والی ایک خبر میں صحافی پر حملے کا ذکر ہے جبکہ صحافی احمد نورانی کی بی بی سی کی رپورٹ بھی آئی۔

اس پر جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا احمد نورانی نے حملہ آوروں کے بارے میں بتایا تھا کہ حملہ کس نے کیا؟ کیا کوئی ادارہ تھا، جس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈوگر پراکسی ہے، اس کی منطق سمجھ نہیں آئی، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ڈوگر ایک بااعتماد آدمی نہیں، اس کی ساکھ آپ کو بتا رہا ہوں۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

دوران سماعت وحید ڈوگر روسٹم پر آئے اور منیر اے ملک کو کہا کہ میں ڈوگر ہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ یہ کون ہے جو روسٹرم پر موجود ہے، اس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ یہ وحید ڈوگر ہیں۔

وکیل کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم کہ یہ وحید ڈوگر ہے؟ اس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ ڈوگر نے مجھے کان میں آکر کہا ہے کہ یہ ڈوگر ہے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کو کبھی رقم تحفے میں دی؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ میں معلوم کرکے بتاسکتا ہوں، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس سوال کا جواب معلوم کرکے رہیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیلنج کرنے کے لیے دائر نئی آئینی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے گزارشات کے نکات بھی طلب کرلیے اور مذکورہ معاملے کو کل (16 اکتوبر) کی صبح ساڑھے 11 تک ملتوی کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی درخواست،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں