چیئرمین سینیٹ، گورنر کے عہدے کی بھی پیشکش ہوئی، فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2019
ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ کسی منصب کے لیے نہیں ہے، مولانا فضل الرحمٰن — فوٹو: ڈان نیوز
ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ کسی منصب کے لیے نہیں ہے، مولانا فضل الرحمٰن — فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف پلان ’سی‘ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں چیئرمین سینیٹ اور گورنر کے عہدے سمیت بلوچستان حکومت کی پیشکش بھی ہوچکی ہے۔

بنوں میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ہمارے کارکنان تازہ دم ہیں، اب ہر ضلع میں مظاہرے شروع ہوں گے اور تحریک ملک کے بازاروں تک جائے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت گرانے میں ایک آدھ جھٹکے کی دیر ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰں نے کہا کہ ’مجھے چیئرمین سینیٹ اور گورنر کے عہدے سمیت دیگر پرکشش مراعات کی پیشکش کی گئیں لیکن ہم نے سب چیزوں کو حقیر سمجھا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ کسی منصب کے لیے نہیں‘۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ’یہ ایک جماعت کا مظاہرہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مظاہرہ تھا‘۔

اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ہمارا ہدف صرف شاہراہیں بند کرنا نہیں ہے، ہم اس سے بھی آگے بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ہم اس ناجائز حکومت کا خاتمہ نہ کر دیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ملک بھر میں موجود کارکنوں کا شکریہ ادا کیا جو دھرنے کا حصہ بنے اور موسم کی مشکلات برداشت کیں۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے چاول کی پیداوار 40 اور کپاس کی پیدوار 50 فیصد کم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت جمود کا شکار ہے اور حکومت ٹماٹر فی کلو 300 روپے مل رہا ہے تو وہ کہتے ہیں 17 روپے۔

یہ بھی پڑھیں: 'مولانا فضل الرحمٰن کی مکمل حمایت کرتے ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کیا جانے کے ملک کا غریب طبقہ کس کرب سے گزر رہا ہے جہاں قوت خرید ختم ہوچکی ہے اور ایسی صورتحال میں حکومت کو مزید مہلت دینا معیشت کو مزید تنزلی کی طرف گامزن کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں کو چور چور کہنے والے خود احتساب سے بھاگ رہے ہیں اور غیرملکی فنڈنگ کیس سے گزشتہ 5 برس سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔

اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ (وزیراعظم عمران خان) جلسے میں کہتے ہیں کہ کھلاڑی ہیں لیکن اپنی ہی پارٹی کے سابق رکن اکبر ایس بابر سے بھاگ رہے ہیں جبکہ وہ (اکبر ایس بابر) بار بار میدان میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ہدف صرف شاہراہیں بند کرنا نہیں، ہم اس سے بھی آگے بڑھیں گے'

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر 5 دسمبر کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کریں بصورت دیگر ان کی مدت ملازمت میں توسیع دی جائے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہم پورے شدومد کے ساتھ تحریک جاری رکھیں گے اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف درج فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ حکم اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی جانب سے گزشتہ روز ایک درخواست دیے جانے کے بعد سامنے آیا، جس میں ای سی پی سے استدعا کی گئی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی مدت اختتام پذیر ہونے سے قبل کیس کا فیصلہ کردیا جائے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں مذکورہ کیس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔

بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔

جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔

علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔

رواں برس یکم اکتوبر کو 10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات مسترد کردیے تھے۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں