آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2019
موجودہ حکومت کے لیے نیا قانون بنانا ایک اعزاز کی بات ہوگی، اٹارنی جنرل — فوٹو: پی آئی ڈی
موجودہ حکومت کے لیے نیا قانون بنانا ایک اعزاز کی بات ہوگی، اٹارنی جنرل — فوٹو: پی آئی ڈی

اٹارنی جنرل برائے پاکستان انور منصور خان کا کہنا ہے کہ آج کا فیصلہ بہت تاریخی ہے جس سے آیندہ کے لیے ہمیں رہنمائی ملے گی جبکہ آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا۔

سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ 'آج کا فیصلہ بہت تاریخی ہے جس سے آیندہ کے لیے ہمیں رہنمائی ملے گی۔'

انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ نے پہلے کبھی ان چیزوں پر فیصلہ نہیں دیا، آرمی ایکٹ ماضی میں کبھی چیلنج نہیں کیا گیا، کیس ٹیک اپ ہوا تو تین دن عدالت میں چلا جس دوران مختلف قوانین پر بحث ہوئی اور بہت سی چیزیں سامنے آئیں جن پر کسی عدالت نے اب تک فیصلہ نہیں دیا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ تقسیم سے قبل کا ہے، کچھ ترامیم کے بعد عمل درآمد ہو رہا ہے، 1973 کے آئین کے بعد کچھ آرمی چیفس کو توسیع دی گئی تھی جبکہ ماضی میں بھی توسیع اسی طرح دی گئی جس طرح جنرل باجوہ کو دی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، زیادہ بحث اس پر ہوئی کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر طے نہیں، آرمی ریگولیشنز کا رول 255 رینک اور پوزیشن طے کرتا ہے، آئین کے آرٹیکل 243 اور رول 255 کو الگ الگ طور پر دیکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پرعزم تھے کہ قانون اور آئین پر عمل درآمد کریں گے، عدالت نے کہا کہ تاخیر کے معاملے سے عدالت کا نام نکال دیں، 1973 کے بعد سے اس کا کوئی قانون بنایا نہیں گیا، عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور طریقہ کار کا قانون بنائیں، عدالت کا زور تھا کہ 243 پر بات کریں 255 کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے، جبکہ موجودہ حکومت کے لیے نیا قانون بنانا ایک اعزاز کی بات ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: کل تک حل نکالیں، فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے، چیف جسٹس

آرمی چیف کی ملازمت 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، فروغ نسیم

سابق وزیر قانون اور توسیع سے متعلق کیس میں آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 243 کی تشریح سپریم کورٹ نے پوائنٹ آف فرسٹ امپریشن کے طور پر کی۔

انہوں نے کہا کہ وکیل اور جج میں مکالمے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بس فیصلہ آرہا ہے، ہر چیز کو اس کے سیاق و سباق کے حساب سے دیکھا جائے جبکہ کھچائی سے متعلق غلط خبر پر ملک یا ملک سے باہر قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے رہنمائی کی کہ قانون لے کر آئیں، 18ویں ترمیم کے بعد دو حکومتیں آئیں انہوں نے کیوں ٹھیک نہیں کیا، جس نے 18ویں ترمیم بنائی ان سے پوچھیں یہ قانون ٹھیک کیوں نہیں کیا، عمران خان کی حکومت آئی تو اس معاملے پر کہہ دیا یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کا ٹینیور آج رات 12 بجے سے شروع ہوگا اور یہ ٹینیور 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگا جبکہ 6 مہینے میں قانون لائیں گے اس میں جو بھی مدت رکھی جائے گی وہ پارلیمنٹ کا صوابدید ہے۔

انہوں نے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ معاملہ ادھر اُدھر کردے، جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا نڈر سپہ سالار دشمنوں کو کھٹکتا ہے لیکن آرمی چیف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں جبکہ عدلیہ اور آرمی ہمارے ہیں انہیں تحفظ دے کر رکھیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایڈوانس نوٹی فکیشن کرنا بُری بات نہیں، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اصف سعید کھوسہ کا نوٹی فکیشن بھی ایڈوانس میں کیا گیا تھا جبکہ حکومت کی کوئی سمری مسترد نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے لیے پروسیجر وہی فالو کیا گیا جو سالہا سال سے فالو ہو رہا تھا جبکہ آج جمہوریت، آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر اعظم کو حاصل اختیار کے تحت ہی یہ تقرری ہوئی ہے، جبکہ آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا تقرری و توسیع کا حق تسلیم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نوٹی فکیشن بلکل واضح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں، نیا قانون 'ایکٹ آف پارلیمنٹ' کے ذریعے بنے گا جبکہ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم ہوگی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی تھی۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو مکمل طور پر یہ یقین دلوایا کے فوج کی روایت کو قانون کے تحت تحفظ دیا جائے گا اور وفاقی حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی کہ فوج میں قائم روایات کو قانون کے تحت لانے کے لیے 6 ماہ میں ضروری قانون سازی کی جائے گی، اس 6 ماہ کے عرصے میں چیف آف آرمی اسٹاف فوج انتظامی نظم و ضبط، تربیت اور کمانڈ کے ذمہ دار ہوں گے۔

عدالت نے حکم دیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعلقہ قانون سازی تک اپنا کام اور امور کی انجام دہی جاری رکھیں، نئی قانون سازی یہ طے کرے گی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت اور ملازمت کی دیگر شرائط و ضوابط کیا ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں