لاڑکانہ میں سگ گزیدگی کا شکار 6 سالہ بچہ دم توڑ گیا

اپ ڈیٹ 12 دسمبر 2019
این آئی سی ایچ کے ڈاکٹروں کے مطابق حسنین کا 27 دن تک علاج جاری رہا—فائل فوٹو:
این آئی سی ایچ کے ڈاکٹروں کے مطابق حسنین کا 27 دن تک علاج جاری رہا—فائل فوٹو:

کراچی: لاڑکانہ میں سگ گزیدگی کا شکار ہونے والا 6 سالہ بچہ دوران علاج دم توڑ گیا۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچہ حسنین کراچی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں گزشتہ تین ہفتے سے زیر علاج تھا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ میں طبی سہولیات کے فقدان کے باعث بچے کا علاج نہیں ہوسکا تھا جس کے بعد متاثرہ بچے کو 16 نومبر کو این آئی سی ایچ کراچی لایا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: لاڑکانہ میں سگ گزیدگی کا شکار ہونے والے بچے کا کراچی میں علاج جاری

این آئی سی ایچ کے ڈاکٹروں کے مطابق حسنین کا 27 دن تک علاج جاری رہا اور اس دوران ماہرین کے ایک پینل نے ان کا علاج کیا اور متعدد آپریشن کیے۔

تاہم ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ بچے کو ریبیز کا مرض لاحق تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ بچے کو 'بڑے پیمانے پر انفیکشن' تھا اور اسے نکرٹائزنگ فاسائائٹس نامی مرض کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پی ایم اے کی حکومت پر تنقید

دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے حسنین کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور شہر کو کتوں سے پاک کرے۔

پی ایم اے نے سگ گزیدگی جیسے سنگین عوامی مسئلے کے بارے میں حکومت کی بے حسی کی مذمت کی۔

سیکریٹری جنرل پی ایم اے ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ 'یہ بے حسی انتہائی اشتعال انگیز ہے، دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی بے حسی نہیں پائی جاتی'۔

مزیدپڑیں: سندھ: ویکسین نہ ہونے پر سگ گزیدگی کا شکار بچہ ماں کی گود میں دم توڑ گیا

انہوں نے کہا کہ خواتین، بچوں، بوڑھے صوبے بھر میں ہر دوسرے دن آوارہ کتوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے خطرناک کتوں کا سدباب کیا جا رہا نہ ہی طبی مراکز پر زندگی بچانے والی ادویات مہیا کی جارہیں۔

اپنے بیان میں پی ایم اے نے آوارہ کتوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر قیصر نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو رہی ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ پاگل کتوں کے کاٹے سے 26 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ کتے کے کاٹنے سے متاثرہ افراد کی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے اندرونی اضلاع میں صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں بنیادی سہولیات میسر اور میڈیا کی کوریج بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہر کوئی جانتا ہے کہ کتے خطرناک ہوسکتے ہیں جبکہ شہریوں کے لیے علاقے کو محفوظ بنانا حکومت کا کام ہے'۔

اپنے بیان میں ڈاکٹر قیصر نے کہا کہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے اور جانوروں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا اقدام ایک طویل مدتی حل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین ناپید، مزید 2 افراد جاں بحق

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'اگر حکومت جانوروں کے حقوق کی اتنی ہی فکر مند ہے تو انہیں جانوروں کی ویٹرنری سہولیات میں منتقل کیا جائے، جہاں ان کی دیکھ بھال، ٹیکے لگانے سمیت ان کی حفاظت کی جاسکے۔

بعض تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ متعدد تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کچرے کے ڈھیر اور کتوں کی بڑھتی آبادی کے درمیان ایک مضبوط رشتہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں