اسٹیٹ بینک کو ڈیم فنڈ میں اوور سیز پاکستانیوں کو حائل 'رکاوٹیں' دور کرنے کی ہدایت

12 دسمبر 2019
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان 'رکاوٹوں' کو دور کرے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈیم فنڈ میں عطیات منتقل کرنے سے روک رہی ہیں، ساتھ ہی عدالت نے اس معاملے پر رپورٹ بھی طلب کرلی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر ڈیم فنڈ میں سرمایہ کاری سے متعلق رپورٹ نیشنل بینک کی جانب سے وجاہت قریشی نے جمع کروائی اور بتایا کہ 12 ارب روپے کی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔

نمائندے کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ آپ نے 12 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ جی جو منافع آتا ہے اسے پھر سرمایہ کاری میں شامل کردیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: میرے جانے کے بعد ڈیم تحریک کو بند نہ ہونے دیا جائے، چیف جسٹس

انہوں نے بتایا کہ نیشنل بینک کے مطابق 21 نومبر کو دوبارہ سرمایہ کاری کی گئی، اس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ یہ جو دوبارہ سرمایہ کاری کی ہے اس کا منافع کب آئے گا، جس پر نیشنل بینک کے نمائندے نے جواب دیا کہ 27 فروری 2020 تک اس کا منافع آجائے گا۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا اسٹیٹ بینک سے کوئی آیا ہوا ہے، ہمیں فنڈز جمع نہ ہونے سے متعلق متعدد شکایات ملی ہیں، اسٹیٹ بینک کو انہیں دیکھنا چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہوا ہے کہ نجی بینک فنڈز وصول نہیں کر رہے، یہ سپریم کورٹ کا حکم تھا کون اس پر عمل نہیں کر رہا، ساتھ ہی جسٹس گلزار نے کہا کہ کون سے بینک عدالتی حکم کی عدولی کررہے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانا چاہتے ہیں لیکن بینک وصول ہی نہیں کر رہے، تمام پاکستانیوں کو ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانے کی سہولت ہونی چاہیے، تمام نجی بینکوں کو فنڈز وصول کرنے کا حکم تھا، پھر کون اس پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔

اسی دوران جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہوا ہے کہ بیرون ملک سفارتخانوں میں ڈیم فنڈ کی بہت بڑی رقم رقم پھنس گئی ہے، رکاوٹ دور کریں اور سفارت خانوں سے رقم واپس لائیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ شکایات ملی ہیں کہ فنڈ جمع نہیں ہورہا لیکن ابھی تک اس پر کارروائی نہیں کی گئی، اسٹیٹ بینک تمام شکایتوں اور رکاوٹوں کو دور کرے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں تمام بینک فنڈ کی ترسیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ بہت زیادہ فنڈز بیرون ملک سفارتخانوں میں ترسیلات زر کے مسائل کی وجہ سے رک گئے ہیں، تمام سفارت خانوں سے رابطہ کرکے فنڈ کو وصول کیا جائے اور گورنر اسٹیٹ بینک عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کرائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیم فنڈ کی مد میں سپریم کورٹ کو یومیہ ایک کروڑ روپے کا نقصان

مذکورہ سماعت کے دوران وکیل سعید رسول نے بتایا کہ دیامر بھاشا، مہمند ڈیم عملدرآمد کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کروائی ہے، جس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ یہ کمیٹی کس نے بنائی تھی۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ کمیٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی اوراس کمیٹی نے 14 روزہ رپورٹ عدالت میں جمع کرانی ہوتی ہے۔

وکیل کی بات پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ کمیٹی نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس میں محبوب الٰہی کا کیا معاملہ ہے، جس پر سعد رسول نے بتایا کہ محبوب الٰہی نے شکایت کی تھی کہ ڈیم کا ٹھیکا دینے میں بدعنوانی کی گئی گئی، محبوب الٰہی نے نیب کو شکایت کی لیکن نیب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ درخواست گزارنے لاہورہائیکورٹ سے رجوع کیا تو پھر نیب عدالتی حکم پر متحرک ہوئی، تاہم محبوب الٰہی نیب میں پیش نہیں ہوئے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب ڈی پی او ڈی جی خان کے ذریعے محبوب الٰہی سے رابطہ کیا گیا تو وہ درخواست سے انکاری تھے، محبوب الہی نے کہا کہ انہوں نے ہائی کورٹ اور نیب میں کسی قسم کی کوئی درخواست نہیں دی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نیسپاک اور ایف ڈبلیو او کو ٹھیکا غیرقانونی طور پر دیا گیا۔

زمین اور فنڈز کا معاملہ

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ عملدرآمد کمیٹی نے رپورٹ جمع کروائی، عملدرآمد کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایک نئی رپورٹ بھی سپریم کورٹ دفتر میں جمع کرائی ہے۔

اس دوران عدالت نے کمیٹی کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے ٹھیکے دار کے معاملے پر بھی سوال کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ یہ سعادت انٹرپرائز کون ہے؟ آپ کو صرف نام استعمال کرنے کے پیسے کیوں دیں؟ آپ نے ٹھیکا لے کر آگے دے دیا۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ یہ بندہ ڈیم میں کمیشن کھا رہا ہے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، چیئرمین واپڈا اس معاملے کو دیکھیں، یہ ڈیم قومی معاملہ ہے کسی کو کمیشن کیوں دیں؟، یہ بینچ اس لیے نہیں بن رہا کہ لوگوں کے کمیشنز بنیں۔

اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ سعادت انٹر پرائززنے ٹھیکا لیکر آگے حسنات برادرزکو دے دیا، چیئرمین واپڈ اس غیرقانونی عمل کو دیکھیں اور روکیں اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائیں اور اس معاملے پر رپورٹ بھی ایک ماہ کے اندر عدالت میں جمع کروائیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ڈیم فنڈ سے نیشنل بینک میں سرمایہ کاری کا فیصلہ

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چیئرمین واپڈا یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے کرنا ہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ آپ کام کررہے ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2 قبائل نے زمین کا مسئلہ اٹھایا، جس پر عدالت میں موجود دو مقامی قبائل کے وکیل روسٹرم پر آئے۔

اس پر جسٹس گلزار نے پوچھا کہ عثمان خیل اور دوسرے قبیلے کو زمین پر اعتراض کیوں ہے؟ جس پر چیئرمین واپڈا نے جواب دیا کہ خیبرپختونخوا حکومت زمین کا مسئلہ حل کر رہی ہے، واپڈا کا زمین حاصل کرنے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

سماعت کے دوران قبائل کے وکیل نے بتایا کہ ڈیم کی 90 فیصد زمین ان دو قبائلوں کی ملکیت ہے، جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ بھی زمین کی قیمت 4 گنا وصول نا کریں۔

اس پر وکیل نے کہا کہ حکومت زمین کی صحیح قیمت ادا نہیں کر رہی، جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی رقم کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زمین واپڈا نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت حاصل کر رہی ہے، اسی دوران چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے مقامی قبائل کے ساتھ معاہدے کے تحت 900 ایکڑ زمین خرید کر واپڈا کو دی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ عثمان خیل سمیت 2 قبائل 90 فیصد زمین کے مالک ہیں، جہاں ڈیم تعمیر ہورہا ہے جبکہ 900 ایکڑ زمین ادائیگی کے بعد واپڈا کو منتقل ہو چکی ہے۔

خیال رہے کہ اس منصوبے کے لیے ریاست کی 19 ہزار 62 اور 18 ہزار 357 ایکڑ نجی زمین ملا کر مجموعی طور پر 37 ہزار 419 ایکڑ زمین درکار ہے، تاہم اس منصوبے سے حکومت، کمیونٹی اور کاروباری انفرااسٹرکچر متاثر ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت زمیں حاصل کرنے کے لیے مجاز اتھارٹی ہیں، ساتھ ہی عدالت نے مقامی قبائل کو زمین کی قیمت کے معاملے پر متعلقہ فورم سے رابطے کی ہدایت کرتے ہوئے مذکورہ درخواست نمٹا دی۔

علاوہ ازیں عدالت میں چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ حکومت ہمارے 200 ارب روپے نہیں دے رہی، یہ 200 ارب روپے سیکریٹری پاور کے پاس ہیں، جس پر عدالت نے سیکریٹری پاور اورسیکریٹری خزانہ کو واپڈا کے واجبات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: فنڈز جمع کرنے کا مقصد ڈیم کی تعمیر نہیں آگہی تھی، سابق چیف جسٹس

ساتھ ہی دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم سے متعلق کیس کیس ماعت 4 ہفتوں کے لیے معطل کردی۔

خیال رہے کہ ملک میں پانی کے بحران کو دیکھتے ہوئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے تحت ایک اکاؤنٹ کھولا گیا تھا۔

چیف جسٹس کے اس اقدام پر وزیر اعظم بھی شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی عوام سے خاص پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے فنڈز کی اپیل کی تھی، جس کے بعد ڈیمز فنڈز میں تیزی سے رقوم جمع ہوئی تھیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اس ڈیم فنڈز کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اس کی تفیصلات کو آن لائن رکھا گیا تھا اور ہر کوئی باآسانی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈیمز فنڈ کا اسٹیٹس دیکھ سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں