سپریم کورٹ۔ —. فائل تصویر

اسلام آباد: کل بروز بدھ 25 جولائی کو حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ تسلیم کرلیا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے ایوی ایشن، شجاعت عظیم دوہری شہریت رکھتے ہیں اور ان کا کورٹ مارشل بھی اُس وقت ہوچکا ہے  جب وہ پاکستان ایئرفورس میں کام کررہے تھے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکلز 93(1,2) اور 63 کی روشنی میں شجاعت عظیم کو 25 جولائی کو عدالت میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ وضاحت کریں کہ انہوں نے مشیر کے حساس منصب کو کیوں قبول کیا، جس کا اسٹیٹس وزیرمملکت کے برابر ہے۔ جبکہ ان کا کورٹ مارشل بھی ہوچکا ہے، اور وہ دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 93 کے مطابق آرٹیکل 57 کی دفعات مشیر کے اوپر لاگو ہوں گی۔ آرٹیکل 57 کے تحت مشیروں کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی کارروائی یامشترکہ اجلاس میں یا پھر پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی میں شریک ہوسکتے ہیں اور تقریر کرسکتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل  63 میں پارلیمنٹ کے رکن نااہلیت کے متعلق بیان ہوا ہے۔ؕ

عدالت کے سامنے اسلام آباد سے تیس کلومیٹر جنوب میں فتح جنگ کے مقام پر نیو بےنظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر کا مسئلہ بھی پیش کیا گیا۔

ایک اخباری رپورٹ ”ایوی ایشن کے لیے ایک نئے حکم سے بے یقینی“ کے حوالے سے اس معاملے کو شجاعت عظیم کی تقرری سے منسلک کر کے 12 جولائی کی گزشتہ سماعت میں دیکھا گیا تھا۔

اس کے بعد عدالت نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ نیوز رپورٹ کے مندرجات پر اپنا ردّعمل جمع کرائے۔

کل بدھ کے روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور ایویشن ڈویژن کی طرف سے پیش ہوئے اور یہ تسلیم کیا کہ شجاعت عظیم کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں۔ رائل ایئر سروس جو کہ گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی ہے، کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے عہدے پر تقرری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شجاعت عظیم نے مشیر کا عہدہ سنبھالنے سے بہت پہلے ہی اس سال فروری میں رائل ایئر سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ نئے ایئرپورٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تصدیق کرچکے ہیں کہ شجاعت عظیم کی چوہدری منیر کے ساتھ اس ٹھیکے میں کسی قسم کی پارٹنرشپ نہیں ہے، جو اس ایئرپورٹ کے انفرانسٹرکچر کے مرکزی کنٹرکٹر ہیں۔

جب اُن سے عدالت نے پوچھا کہ شجاعت عظیم کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا؟ تو اٹارنی جنرل نے اسے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی اے ایف چھوڑنے کے لیے درخواست دی تھی۔

لیکن جب اُن کی اس درخواست کو رد کردیا گیا تو ان کے اپنے سینیئرز کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے، اس لے کہ وہ ان کی پوسٹنگ مختلف اسٹیشنز پر کررہے تھے، نتیجے میں ان کا کورٹ مارشل کیا گیا اور ان کی ملازمت ختم کردی گئی۔

رائل ایئر سروس کے ڈائریکٹرز کے بارے میں عدالت کے پوچھے گئے سوال کے جواب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے، جسے نومبر 2004ء مین کمپنیز آرڈیننس 1984ء کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا تھا، اور اس کے چیف ایگزیکٹیو، ڈائریکٹر سلیم بشیر لیانگ، ڈائریکٹر ریٹائرڈ ایئر کموڈور طارق شہاب اور ڈائریکٹر بابر ناصر تھے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے وضاحت کی کہ کینیڈا کی شہریت رکھنے والے مشیر ملکہ الزبتھ سے حلف اُٹھاچکے ہیں ، اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وہ وضاحت پیش کرسکتے ہیں کہ حکومت نے شجاعت عظیم کی بطور مشیر تقرری کرنے سے پہلے اس پہلو پر غور کیا تھا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ افغانستان میں جاری صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے، اور اسی وجہ سے سول ایوی ایشن اتھارٹی بھی انتہائی حساس شعبہ بن گیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر شجاعت عظیم کی تقرری پر حکومت سے نئی ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

تاہم عدالت نے شجاعت عظیم کو ایک نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ وہ وضاحت کریں کہ انہوں نے کس طرح یہ عہدہ حاصل کرلیا جبکہ ان کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے۔ عدالت نے سیکیوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو بھی حکم دیا کہ وہ عدالت کے سامنے رائل ایئر سروس کے شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات جمعرات کو پیش کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Faraz Jul 25, 2013 07:10am
I am shock to read this news that the governament knows that this person is duel national and faced court martial but they appoint him as an adviser to the primeminister and CJ is insted of callining the PM for explanation he called the adviser for expanation why in Nawaz Sharif case the law is different this is not the first time in few days CJ is not taking any action agaisnt the PM as he did agaist the last governament