2019 میں عالمی آزادی صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا، رپورٹ

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2019
صحافت کو کمزور کرنے اور آزاد صحافیوں کی ساکھ خراب کرنے کے لیے بیان بازی کا استعمال بڑھتا ہوا دیکھا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
صحافت کو کمزور کرنے اور آزاد صحافیوں کی ساکھ خراب کرنے کے لیے بیان بازی کا استعمال بڑھتا ہوا دیکھا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی اموات کی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجود، 2019 میں عالمی آزادی صحافت کے بحران میں مزید اضافہ ہوا۔

آئی پی آئی نے کہا کہ 2019 میں حکومتیں قانونی طور پر ہراساں کرنے، مذموم مہمات اور آزاد میڈیا اور صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے آن لائن حملوں میں اضافے کی جانب مائل ہوئیں۔

ویانا میں موجود تنظیم آئی پی آئی کی جانب سے رواں برس آزادی صحافت کی عالمی کوریج میں صحافیوں کو دھمکانے، ہراساں کرنے اور جیل بھیجنے کے لیے نئے اور موجودہ قوانین کے غلط استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان میں آزادی صحافت سیاہ دور سے گزر رہی ہے‘

اس کے ساتھ ہی صحافت کو کمزور کرنے اور آزاد صحافیوں کی ساکھ خراب کرنے کے لیے بیان بازی کا استعمال بڑھتا ہوا دیکھا گیا۔

آئی پی آئی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹریونفی نے کہا کہ اگرچہ استثنیٰ ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے لیکن سال 2019 میں صحافیوں کے قتل کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی اور یہ 20 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں، تاہم ہمیں خدشہ ہے کہ یہ کئی ممالک میں آمرانہ رجحانات کا نتیجہ ہوسکتا ہے جہاں پریس کو خاموش کروانے کے لیے تنقیدی صحافیوں کو ہراساں اور قید کرنے کے لیے قانون کو توڑنا مروڑنا جبکہ آزاد میڈیا پر تہمتیں لگانے جیسے متبادل ذرائع سیاسی رہنماؤں کو تنقید سے بچانے کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔

انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ نے کہا کہ رواں برس پولیس کے چھاپے اور صحافیوں کی گرفتاریوں میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں حکومت نے قومی سلامتی یا ’ جعلی خبروں ‘ اور نفرت انگیز تقاریر کے خاتمے کے نام پر نئے قوانین نافذ کیے اور نائیجیریا، کمبوڈیا اور سنگاپور میں اس حوالے سے قانون سازی ہوئی۔

دیگر ممالک نے میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے پہلے سے موجودہ قانونی طریقوں کا استعمال کیا۔

آئی پی آئی کے مطابق سیاست دانوں نے بھی خود پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ہراساں اور بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا کی ساکھ خراب کرنے کے لیے اسے عوام کا دشمن کہتے رہے جبکہ دنیا کے دیگر مقبول اور آمرانہ مزاج کے رہنماؤں نے میڈیا کی نگرانی کے کردار کو نقصان پہنچانے کے لیے اسی طرح کے حربے اپنائے۔

رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ پاکستان میں حکمراں جماعت کے سیاست دانوں نے انگریزی زبان کے اخبار روزنامہ ڈان کو 29 نومبر کو لندن میں ہونے والے حملے سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے بعد ڈان کے ایڈیٹر اور چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

مزید برآں رپورٹ کے مطابق 2019 میں پریس کے خلاف قانونی کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں صحافیوں کے قتل کی تعداد میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔

آئی پی آئی کی ڈیتھ واچ کے مطابق رواں برس دنیا بھر میں 47 صحافی قتل ہوئے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 79 اور 2017 میں 82 تھی۔

اس کے علاوہ رواں برس قتل کیے گئے صحافیوں میں سے 30 کو کرپشن یا مجرمانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے سے متعلق رپورٹس پر ردعمل میں ان کے کام کی وجہ سے ٹارگٹڈ حملوں میں قتل کیا گیا۔

آئی پی آئی نے کہا کہ قتل کی تعداد میں کمی خوش آئند ہے تاہم ماضی میں ہونے والے قتل پر استثنیٰ میں اضافہ برقرار ہے۔


یہ خبر 24 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں