ہواوے کو چین کی حکومت کی جانب سے 75 ارب ڈالرز کی مالی معاونت فراہم کی گئی جس سے کمپنی کو کھلے دل سے سرمایہ کاری کرنے میں مدد مل سکی۔

یہ دعویٰ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں عوامی طور پر دستیاب ریکارڈز کے حوالے سے کیا، جبکہ ہواوے نے اس کی تردید جاری کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہواوے کو ریاستی کنٹرول لینڈرز کی جانب سے 46 ارب ڈالرز قرضوں اور لائن آف کریڈٹ کی مد میں ملیں جبکہ 1.6 ارب ڈارلز کی گرانٹ بھی دی گئی۔

اسی طرح ہواوے کو 2008 سے 2018 کے دوران ٹیکسون کی مد میں 25 ارب ڈالرز کی چھوٹ دی گئی جو کہ چین کے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو دی جانے والی مراعات کا حصہ تھا اور 2 ارب ڈالرز زمینوں کی خریداری کے لیے ملے۔

دوسری جانب ہواوے نے اس مضمون پر مختلف ٹوئیٹس اور ایک طویل بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

کمپنی نے کہا 'ایک بار پھر وال اسٹریٹ جرنل نے غلط معلومات پر ہواوے کے بارے میں جھوٹا مضمون شائع کیا، اس بار کمپنی کے سرمائے کے بارے میں الزامات عائد کرتے ہوئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لیے 30 سال کی سرمایہ کاری کو نظرانداز کردیا گیا جس کا مقصد ٹیکنالوجی انڈسٹری میں تنوع اور بہتری لانا ہے'۔

چینی کمپنی نے کہا کہ اس کے پاس امریکی جریدے کے خلاف قانونی کارروائی کا حق موجود ہے جو متعدد غیر ذمہ دارانہ مضامین شائع کرچکا ہے۔

ہواوے نے زور دیا کہ اس کی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر سرماریہ کاری اس کی کامیابی کی وجہ ہے، گزشتہ 30 سال کے دوران سالانہ آمدنی کا 10 سے 15 فیصد حصہ نئی ٹیکنالوجیز اور مصنوعات کی تیاری پر لگایا گیا۔

کمپنی نے اس بات کی بھی تردید کی کہ اس کے ساتھ چینی حکومت کی جانب سے خصوصی سلوک کیا جاتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ بیشتر حکومتیں اپنی بڑی کمپنیوں کی مدد کرتی ہیں، مثال کے طور پر بوئنگ کو امریکی حکومت کی جانب سے اکثر مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ہواوے کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے جواز پیش کیا گیا تھا کہ وہ چینی حکومت کے قریب اور اس کے لیے جاسوسی کرتی ہے، مگر کمپنی کی جانب سے متعدد بار اس کی تردید کی گئی۔

امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ہواوے اپنے فلیگ شپ فون میٹ 30 میں گوگل سروسز اور ایپس کو استعمال نہیں کرسکی تھی جبکہ اینڈرائیڈ کا اوپن سورس آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنا پڑا۔

اس حوالے سے نومبر 2019 میں ہواوے کے بانی رین زینگ فائی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہواوے گوگل سافٹ وئیر اور ایپس سے دور رہ کر بھی دنیا کی نمبرون اسمارٹ فون کمپنی بن سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معمول کے کاروبار پر واپسی کا وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے اور ایک بار جب کمپنی کی جانب سے متبادل آپریٹنگ سسٹم متعارف کرادیا جائے گا تو پھر وہ واپس مڑ کر نہیں دیکھے گی اور اس کا منفی اثر امریکا پر مرتب ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پلان بی پر کام بڑھ گیا تو پھر ہمارے لیے سابقہ آپریٹنگ سسٹم (اینڈرائیڈ) اور سافٹ وئیر پر واپسی کا امکان بہت کم ہوگا اور اگر واپسی بھی ہوئی تو کسی نئے متبادل کے لیے۔

رین زینگ فائی نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے انتہائی اہم وقت ہے اور امریکی حکومت کو امریکی کمپنیوں کے مفاد پر غور کرنا چاہیے۔

انہوں نے سام سنگ اور ایپل کو خبردار کیا کہ امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے کے باوجود ان کی کمپنی نمبرون اسمارٹ فون کمپنی بن جائے گی 'اینڈرائیڈ کے بغیر بھی ہم دنیا کے نمبرون کمپنی بن سکتے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی مسئلہ ہوگا، بس وقت لگے گا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں