میئر کراچی نے بیٹے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2020
وسیم اختر کے بیٹے نے  31 دسمبر  2019 کی رات کو نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
وسیم اختر کے بیٹے نے 31 دسمبر 2019 کی رات کو نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

میئر کراچی وسیم اختر نے نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنانے پر بیٹے کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لی جو نوجوان کے اہلِ خانہ نے قبول کرلی۔

خیال رہے کہ نئے سال کی رات کو وسیم اختر کے بیٹے تیمور وسیم اور دیگر نے ہوائی فائرنگ سے روکنے کی کوشش کر نے والے نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کا مقدمہ گزشتہ روز درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد وسیم اختر، حسنین حیدر کے گھر پہنچے اور ان کے والد سے اپنے بیٹے تیمور وسیم کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔

نوجوان کے والد محبوب عباسی نے ڈان کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد میئر وسیم اختر نے ان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا کیونکہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے گزشتہ روز اور آج کراچی میں پریس کلب میں احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: میئر کراچی وسیم اختر کے بیٹے کےخلاف نوجوان پر 'تشدد' کا مقدمہ

محبوب عباسی نے بتایا کہ آج وسیم اختر اپنے بیٹے کے ہمراہ کلفٹن میں واقع ان کی رہائش گاہ آئے جہاں رکن صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی، سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر شفقت عباسی اور سینئر سیاست دان سید غلام شاہ اور آصف بلادی بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ میئر کراچی نے اپنے بیٹے کی غلطی تسلیم کی اور اس کے رویے کی معافی بھی مانگی۔

محبوب عباسی نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے بیٹے نے سندھ کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے معافی قبول کی کیونکہ وسیم اختر ان کی رہائش گاہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ میئر کراچی کے بیٹے کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں گے۔

محبوب عباسی نے کہا کہ بچوں کی مناسب تربیت میں کمی، گنز اور گارڈ کلچر کی وجہ سے ماضی قریب میں ڈی ایچ اے میں سانحات پیش آئے تھے۔

گزشتہ روز درخشاں تھانے کے پولیس افسر نے کہا تھا کہ تیمور وسیم اور محافظوں سمیت دیگر 10 افراد کے خلاف 31 دسمبر کی رات کو 19 سالہ طالب علم حسنین حیدر پر تشدد کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔

تیمور وسیم اور دیگر کے خلاف مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 337 'ایچ'، 506، 427، 337 'اے' اور 34 شامل کی گئیں تھیں۔

ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے موقف اپنایا تھا کہ وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ ڈیفنس فیز 8 کے ایک پیٹرول پمپ پر دیگر دوستوں کا انتظار کر رہا تھا کہ اس دوران 2 ویگو گاڑیاں رات کو تقریباً 10 بجے وہاں آئیں جن میں محافظوں سمیت 8 سے 10 افراد سوار تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کی پیشکش پر ہماری پارٹی سوچ سکتی ہے، وسیم اختر

انہوں نے کہا تھا کہ گاڑیوں میں سوار افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور جب انہوں نے اس کی وجہ جاننی چاہی تو گاڑیوں میں آنے والے افراد نے پہلے انہیں بھلا بُرا کہا اور پھر سے فائرنگ شروع کردی۔

اس کے بعد شکایت کنندہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنی گاڑی میں وہاں سے چلا گیا لیکن جیسے ہی وہ اسی علاقے کی حمزہ مسجد کے قریب پہنچے تو ویگو گاڑیوں میں سوار افراد نے انہیں روکا، جس کے بعد تیمور وسیم ایک گاڑی سے اترا اور نوجوان کے قریب آکر اسے پستول کا بَٹ مارا جبکہ ان کے محافظوں نے بھی نوجوان پر تشدد کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تیمور وسیم کے محافظوں نے اسے اپنی گاڑی میں بٹھانے کی بھی کوشش کی تھی تاہم مزاحمت پر وہ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے۔

درخشاں تھانے کے افسر نے کہا تھا کہ مقدمے میں اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں