ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی جوابی کارروائی میں میزائل داغے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی جوابی کارروائی میں میزائل داغے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ایرانی پاسداران انقلاب نے سخت الفاظ میں امریکا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی اقدام یا جارحیت کے مزید تکلیف دہ اور بھرپور ردعمل دیے جائیں گے۔

ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کے بعد پاسدارانِ انقلاب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ آئی آر جی سی ایئرواسپیس فورس کے بہادر سپاہیوں نے جنرل قاسم سلیمانی کے نام پر کامیاب آپریشن میں امریکی فوج کے زیرِ قبضہ عین الاسد فوجی اڈے پر درجنوں بیلسٹک میزائل داغے‘۔

پاسدارانِ انقلاب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ ہم امریکا کے تمام اتحادیوں کو خبردار کرتے ہیں جو امریکی فوج کو اپنے فوجی اڈے دیتے ہیں کہ اگر کوئی بھی علاقہ کسی بھی طریقے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدام کے آغاز کا مقام بنا تو اسے نشانہ بنایا جائے گا‘۔

مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے

بیان میں کہا گیا کہ ’ ہم کسی بھی طریقے سے صیہونی حکومت (اسرائیل ) کو امریکی حکومت کے ان جرائم سے الگ نہیں سمجھتے ‘۔

پاسدارانِ انقلاب نے امریکی عوام کو زیادہ نقصان سے بچنے کے لیےخطے سے امریکی فورسز کے انخلا اور واشنگٹن حکومت کو امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہ دینے کا مطالبہ کرنے پر زور دیا۔

علاوہ ازیں تسنیم نیوز کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد حسین باقری نے کہا کہ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملوں کے ذریعے ’امریکی حکام ‘ کو خبردار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں امریکی فورسز پر کیے گئے حملوں سے ایرانی مسلح افواج کی صلاحیتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ سامنے آیا ہے اور وہ حملے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں کیے گئے۔

میجر جنرل محمد حسین باقری نے کہا کہ اب سے بڑے پیمانے پر امریکا کی کسی نئی کارروائی کا مزید سخت اور بھرپور ردعمل دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پینٹاگون نے امریکی صدر کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا

ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے امریکی حکام، اسلامی جمہوریہ ایران کی صلاحیتوں کو عالمی جغرافیے کے وسیع تناظر میں پہچانیں، ایک اصولی نقطہ نظر رکھیں اور جتنی جلدی ممکن ہوسکے خطے سے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔

ایرانی خبررساں ایجنسی ارنا کی رپورٹ کے مطابق بریگیڈیئر جنرل رمضان شریف نے عین الاسد فضائی اڈے میں 4 ہزار فوجیوں کی جگہ اور وہاں جدید ترین فوجی آلات موجود ہیں۔

خیال رہے کہ ایران نے گزشتہ شب ڈیڑھ بجے عراق میں 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد میزائل داغتے ہوئے امریکی افواج کو نشانہ بنایا تھا۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں راکٹ فائر کرنے کی تصدیق کی تھی۔

بعدازاں پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عراق میں عین الاسد فضائی اڈے اور اربیل میں ایک اور اڈے کو نشانہ بنایا گیا، ہم لڑائی سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی جائزے پر کام کررہے ہیں‘۔

ایران امریکا کشیدگی

واضح رہے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری ہلاک ہوگیا تھا۔

جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (اوآئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کو وہاں سے باحفاظت نکال لیا گیا تھا۔

مظاہرین نے امریکی سفارت خانہ بند کرنے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کے مطالبات پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارت خانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا تھا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید ہوگئی جب 3 جنوری کو امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ

قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

بعدازاں 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں