مجوزہ امریکی منصوبے کے بعد فلسطین اوسلو معاہدے کا پابند نہیں رہا، محمود عباس

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2020
انہوں نے کہا کہ امریکا کا مشرق وسطیٰ کے  لیے امن منصوبہ اوسلو معاہدے کے منافی ہے —فائل فوٹو: پریس ٹی وی
انہوں نے کہا کہ امریکا کا مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ اوسلو معاہدے کے منافی ہے —فائل فوٹو: پریس ٹی وی

ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے پیغام پہنچا دیا۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا ہے کہ اب فلسطین اوسلو کے معاہدے پر عملدرآمد سے آزاد ہے۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

انہوں نے کہا کہ 'امریکا کا مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ اوسلو معاہدے کے منافی ہے'۔

رپورٹ میں اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ فلسطین کے وزیر برائے سول امور حسین الشیخ کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی کے ایک وفد نے اسرائیلی وزیر خزانہ موشے کہلون سے ملاقات کی اور محمود عباس کا عربی میں تحریر کردہ ایک مراسلہ ان کے حوالے کیا۔

رپورٹ کے مطابق محمود عباس نے اپنے مراسلے میں زور دیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل ۔ فلسطین تنازع کا مجوزہ حل دراصل 1993 کے اوسلو معاہدوں کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'امریکی منصوبے میں مغربی کنارے کو تقسیم کرکے اس پر اسرائیل، فلسطین اور اس پر مشترکہ کنٹرول دے دیا گیا'۔

رپورٹ کے مطابق مراسلے میں کہا گیا کہ 'فلسیطنی اتھارٹی اب خود کو اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے آزاد سمجھتی ہے جس میں سیکیورٹی تعاون بھی شامل ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کےمشرق وسطیٰ منصوبے کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج

رپورٹ کے مطابق فلسطینی صدر نے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے قاہرہ جانے سے قبل اسرائیل کو ٹرمپ کے نام نہاد 'صدی کے معاہدے' کے بارے میں اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔

علاوہ ازیں فلسطین کے وزیر برائے سول امور حسین الشیخ نے اسرائیلی وزیر کو بتایا کہ کہ محمود عباس نے امریکا کی جانب سے امن منصوبہ پیش کیے جانے کے بعد ٹرمپ کی کال موصول کی اور نہ ہی انہوں نے امریکی صدر کے ارسال کیے گئے مراسلے کو قبول کیا۔

اسرائیلی وزیر نے فلسطینی وزیر کو بتایا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ روس کے بعد مراسلہ انہیں پیش کریں گے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگادی۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے مطالبے کی حمایت

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہوجائے گا'۔

اس منصوبے میں امریکا نے اسرائیل کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وادی اردن کو ضم کرنے کی بھی منظوری دی جو مغربی کنارے کا 30 فیصد علاقہ ہے جبکہ دیگر یہودی بستیوں کے الحاق کی اجازت بھی شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں