سری لنکا: حکومت کا یوم آزادی پر تامل زبان میں قومی ترانہ پڑھنے سے انکار

05 فروری 2020
ملک کے 72ویں جشن آزادی کی تقریب میں سری لنکن فوجی اہلکار روایتی لباس میں مارچ کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
ملک کے 72ویں جشن آزادی کی تقریب میں سری لنکن فوجی اہلکار روایتی لباس میں مارچ کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

سری لنکا کی نئی حکومت نے ملک کے یوم آزادی کی تقریبات میں سری لنکا کی دوسری قومی زبان 'تامل' میں قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق سری لنکا کی گزشتہ حکومت، طویل خانہ جنگی کے بعد ملک میں نسلی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سرکاری تقریبات میں ملک کی دو بنیادی زبانوں میں قومی ترانہ پڑھتی تھی۔

سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپاکسا نے گزشتہ سال صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔

ملک کے بدھ مت سنہالیوں نے بڑی تعداد میں انہیں ووٹ دیے تھے جبکہ اقلیتی تامل افراد ان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

گوٹابایا راجاپاکسا خانہ جنگی کے دوران ملک کے اعلیٰ دفاعی عہدیدار رہے ہیں جنہوں نے باغی تامل ٹائیگرز کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس خانہ جنگی میں متعدد تامل شہری ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکن الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل سرکاری ٹی وی کو سینسر کردیا

برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے 72 سالہ جشن کی سرکاری تقریبات کولمبو میں فوجی پریڈ اور ایئر شوز کے ساتھ منعقد کی گئیں۔

صدر گوٹابایا راجاپاکسا نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ تمام برادریوں کے صدر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرا یہ وژن ہے کہ میں کسی مخصوص برادری کے سیاسی رہنما کے بجائے ملک کے ہر شہری کے رہنما کے طور پر ان کی خدمت کروں۔'

انہوں نے کہا کہ 'بطور صدر میں کسی نسل، مذہب، پارٹی وابستگی اور دیگر تفریق کے بغیر پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہوں۔'

واضح رہے کہ گوٹابایا راجاپاکسا کے حامی گزشتہ حکومت میں بھی قومی ترانہ تامل زبان میں پڑھنے کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔

تامل سیاست دانوں نے صدر سے درخواست کی تھی کہ قومی ترانے کے آئین کے مطابق تسلیم کردہ ترجمے کو پڑھنے کی روایت قائم رکھی جائے تاکہ یہ تامل برادری کو، کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد ریاست سے تعلق کا احساس دلاتی رہی۔

مزید پڑھیں: سری لنکا میں وزیراعظم کا ’تنازع‘، پارلیمنٹ میدان جنگ بن گیا

یاد رہے کہ تامل ٹائیگر باغی آزاد ریاست کے حصول کے لیے 26 سال تک لڑائی کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ انہیں بدھ مت سنہالیوں کے اکثریتی ملک میں آزادی کے بعد سے منظم طریقے سے پسماندہ رکھا جارہا ہے۔

سری لنکا کی فوج نے باغیوں کو 2009 میں شکست دی تھی جس میں گوٹابایا راجاپاکسا نے اپنے بھائی اور سابق صدر مہندا راجاپاکسا کی حکومت میں بطور دفاعی بیوروکریٹ اہم کردار ادا کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے محتاط اندازے کے مطابق اس خانہ جنگی میں سری لنکا میں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس عرصے کے دوران سری لنکا کی حکومت اور باغیوں دونوں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں