شہباز شریف رواں ماہ کے اختتام تک وطن واپس پہنچیں گے، رانا ثنا اللہ

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2020
انسداد منشیات عدالت نے رانا ثنا اللہ کی گواہان کے بیانات فراہم کرنے کیلئے دائر درخواست پر بحث کے لیے 28 مارچ کی تاریخ مقرر کردی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
انسداد منشیات عدالت نے رانا ثنا اللہ کی گواہان کے بیانات فراہم کرنے کیلئے دائر درخواست پر بحث کے لیے 28 مارچ کی تاریخ مقرر کردی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف رواں ماہ کے آخر میں وطن واپس پہنچیں گے اور اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کریں گے۔

انسداد منشیات عدالت میں پیشی کے بعد رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا اور اس کے بعد فیصل آباد کے سیکڑوں منشیات فروشوں کو میرے خلاف گواہی کے لیے بلوایا گیا لیکن وہ بیانات اے این ایف کے کسی کام نہ آئے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کاغذات میں کسی گواہ کا بیان شامل نہیں ہے، ہمارے وکلا نے ان گواہوں کے ریکارڈ کیے گئے بیانات کی نقول مانگی ہیں'۔

شہباز شریف کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف اسی ماہ کے اختتام تک وطن واپس پہنچیں گے اور اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اے این ایف نے گرفتار کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف کے دل کے علاج کے بعد شہباز شریف واپس آئیں گے'۔

عورت مارچ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ ہونا چاہیے اور عورت کو اس کے مکمل حقوق ملنے چاہیں، اسلام نے ہی عورت کو تمام حقوق دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا تشریح درست نہیں کی جا رہی'۔

انہوں نے کہا کہ '2020 کو تمام اپوزیشن نے مشترکہ طور پر مڈ ٹرم انتخابات کا سال قرار دیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ان آٹا و چینی چوروں نے ملک میں بے پناہ مہنگائی کر دی ہے، موجودہ ملکی معاشی صورتحال میں حکومت کو مہنگائی، کاروبار ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں بلکہ انہیں صرف نواز شریف کی صحت کی فکر ہے کہ وہ کہیں صحت مند نہ ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: منشیات کیس: رانا ثنا اللہ کی ویڈیو اور گاڑی حوالے کرنے کی درخواستیں مسترد

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اگر یہ حکومت مزید کچھ عرصہ رہی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے'۔

منشیات برآمدگی کیس

قبل ازیں رانا ثنااللہ کے خلاف انسداد منشیات عدالت میں منشیات برآمدگی کیس کی سماعت ہوئی جس میں رانا ثنا اللہ نے گواہوں کے بیانات کی فراہمی کے لیے درخواست دائر کی۔

رانا ثنا اللہ کے وکیل فرہاد شاہ نے عدالت کو بتایا کہ '50 سے زائد نئے لوگوں کو شامل تفتیش کیا گیا، ایک شریک ملزم کی جانب سے نئے وکیل کا وکالت نامہ دیا ہے اور انہوں نے ریکارڈ دیکھنے کی مہلت مانگی ہے'۔

اس پر انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کے استغاثہ نے کہا کہ 'پچھلی تاریخ پر یہ طے تھا کہ آج فرد جرم عائد کی جائے گی، 5 ملزمان ہیں کوئی نہ کوئی تاریخ مانگتا رہے گا'۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ 'فرد جرم عائد کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا'۔

رانا ثنا اللہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'کچھ لوگوں کو بلایا گیا لیکن ہمیں ان کے بیانات کی کاپی نہیں دی گئی'۔

مزید پڑھیں: ضمانت کے بعد رانا ثنا رہا: استغاثہ کے کیس میں 'خامیاں' واضح ہیں، تفصیلی فیصلہ

عدالت نے رانا ثنا اللہ کی درخواست پر بحث کے لیے 28 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی اور کہا کہ اس کے بعد مزید کوئی تاریخ نہیں دی جائے گی۔

اثاثے منجمد کرنے سے متعلق کیس

انسداد منشیات عدالت میں رانا ثنا اللہ اثاثے منجمد کرنے سے متعلق کیس کی سماعت بھی ہوئی جہاں رانا ثنا اللہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'ابھی تک ہمیں اس کیس کے حوالے سے دستاویزات نہیں دی گئیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے اثاثے منجمد ہوئے مگر ہمیں ہی ریکارڈ نہیں دیا جا رہا'۔

بعد ازاں عدالت نے اثاثے منجمد کرنے کے حوالے سے ریکارڈ رانا ثنااللہ کے حوالے کرنے کا حکم جاری کردیا۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

24 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں