منشیات کیس: رانا ثنا اللہ کی ویڈیو اور گاڑی حوالے کرنے کی درخواستیں مسترد

اپ ڈیٹ 08 فروری 2020
خصوصی عدالت نے رانا ثنااللہ کی فوٹیجز فراہم کرنے اور گاڑی سپرداری کی درخواست مسترد کیں — فائل فوٹو:ڈان نیوز
خصوصی عدالت نے رانا ثنااللہ کی فوٹیجز فراہم کرنے اور گاڑی سپرداری کی درخواست مسترد کیں — فائل فوٹو:ڈان نیوز

انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران ان کی درخواستیں مسترد کردی۔

صوبائی دارالحکومت کی عدالت میں جج شاکر حسین نے رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کی، جہاں مسلم لیگ (ن) کے وکیل فرہاد علی شاہ نے دلائل دیے۔

فرہاد علی شاہ نے عدالت سے کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ ہائیکورٹ بار کے انتخابات ہیں لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ 29 فروری کے بعد کی تاریخ دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس عدالت میں اور بھی کیسز ہیں کیا پروسکیوشن کو ان کیسز میں جلدی نہیں ہے، صرف رانا ثنا اللہ کے کیس میں جلدی کس بات کی ہے'۔

مزید پڑھیں: ضمانت کے بعد رانا ثنا رہا: استغاثہ کے کیس میں 'خامیاں' واضح ہیں، تفصیلی فیصلہ

اس موقع پر استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ 'رانا صاحب الزام لگاتے ہیں کہ استغاثہ تاخیری حربے استمعال کررہی ہے، اس لیے چاہتے ہیں کہ مقدمے کا تیزی سے ٹرائل ہو'۔

بعد ازاں عدالت نے رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات کے معاملے میں استغاثہ کی ایک اور رانا ثنا اللہ کی دو درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تینوں درخواستوں کو مسترد کردیا۔

عدالت نے رانا ثنااللہ کی ویڈیو فوٹیجز فراہم کرنے کی درخواست اور گاڑی سپرداری کرنے کی درخواست مسترد کی جبکہ استغاثہ کی روزانہ کیس کی سماعت کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔

علاوہ ازیں عدالت نے آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے رانا ثنا اللہ کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔

رانا ثنا اللہ کی میڈیا سے گفتگو

ادھر عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 'حکومت کی کوشش ہے کہ ہم ان سے وہ ویڈیو نہ مانگیں جس کا انہوں نے قوم سے وعدہ کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے جن لوگوں کا بتایا تھا کہ ان کے ذریعے ہم رانا ثنا اللہ تک پہنچے وہ لوگ کہاں ہیں، ہمیں وہ لوگ اور ویڈیو لا کر دیں یا پھر معافی مانگیں'۔

انہوں نے بتایا کہ 'عدالت نے گزشتہ سماعت میں کہا تھا کہ استغاثہ بیان ریکارڈ کرادے کہ ان کے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے اور اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں مگر انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'ہم ان کو ہر سطح پر بے نقاب کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا، ابھی بھی ملزم ہیں، شہریار آفریدی

مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'مریم نواز کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا، عدالت سے انہوں نے ضمانت لی جبکہ حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے ناجائز طور پر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا ہے، یہ مریم نواز کا حق ہے کہ وہ اپنے والد کی دل کی سرجری کے وقت وہاں موجود ہوں، انہیں روکنا ظلم اور بدترین انتقام ہے'۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 'میاں شہباز شریف واپس آرہے ہیں اور ان کی دعوت پر اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس ہوگی جس میں مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کے اے ٹیم ایم نے آٹے اور چینی کے بحران میں 180 ارب کا ڈاکا ڈالا ہے جبکہ وزیر اعظم فخر سے کہتے ہیں کہ میں تو کچھ خرچ کرتا ہی نہیں اور میرا خرچہ میرے دوست برداشت کرتے ہیں'۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ 'وزیر اعظم کا خرچہ ان کے دوست نہیں ان کے اے ٹی ایم برداشت کرتے ہیں اور انہوں نے خود اپنے اے ٹی ایم کو بھرا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیر اعظم 5 کروڑ روپے کا خرچہ بچاتے ہیں اور اے ٹی ایم 5 ارب روپے کماتے ہیں'۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اے این ایف نے گرفتار کرلیا

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

24 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں