وفاقی کابینہ 28 اپریل کو شوگر آڈٹ سے متعلق فیصلہ کرے گی

اپ ڈیٹ 26 اپريل 2020
رپورٹ کے مطابق شوگر فرانزک کمیشن نے چینی بحران سے متعلق جامع رپورٹ جمع کروانے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی توسیع کی درخواست دی ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
رپورٹ کے مطابق شوگر فرانزک کمیشن نے چینی بحران سے متعلق جامع رپورٹ جمع کروانے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی توسیع کی درخواست دی ہے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وفاقی کابینہ، شوگر فرانزک کمیشن (ایس ایف سی) کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والے چینی بحران سے متعلق رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید 3 ہفتے کی مہلت کی درخواست کا فٰیصلہ 28 اپریل کو کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصٰی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر فرانزک کمیشن نے رپورٹ آج جمع کروانی تھی تاہم کمیشن نے جامع رپورٹ جمع کروانے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی توسیع کی درخواست دی ہے اور وفاقی کابینہ ان کی درخواست پر 28 اپریل کو غور کرے گی۔

اس سے قبل 24 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل کردہ کمیشن نے کورونا وائرس کی صورتحال سمیت مختلف وجوہات کی بنیاد پر 24 اپریل کو وفاقی حکومت سے رپورٹ کے لیے باضابطہ طور پر مزید مہلت کی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’وزیراعظم نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی‘

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپریل کے پہلے ہفتے میں ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والے چینی اور گندم کے مصنوعی بحران اور قیمتوں میں اضافے سے متعلق 2 علیحدہ رپورٹس جاری ہونے کے بعد کمیشن تشکیل دیا تھا۔

رپورٹ سامنے آنے کے بعد اپوزیشن نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ ایف آئی اے نے جن افراد کو بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں