سپریم کورٹ: آرمی ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کا تعین 13 مئی کو ہوگا

اپ ڈیٹ 10 مئ 2020
سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ انعام الرحیم کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے خلاف اپیل پر سماعت کرے گا۔ فائل فوٹو:اے پی پی
سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ انعام الرحیم کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے خلاف اپیل پر سماعت کرے گا۔ فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ بدھ کے روز لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی گرفتاری کے کیس میں وفاقی حکومت کی اپیل پر جب سماعت کا آغاز کرے گا تو اس دوران یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے پاک فوج ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت کسی شہری پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ کے 9 جنوری کے فیصلے، جس میں اس نے انعام الرحیم کے بیٹے حسنین انعام کی درخواست پر ان کے والد کو حراست میں لیے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا، کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کرے گا۔

3 مارچ کے اپنے حکم میں، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ کسی شخص کے آئین کے باب اول کے حصہ دوئم میں درج بنیادی حقوق سے انکار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پی اے اے کا شکار ہوگیا ہے جبکہ وہ مسلح افواج کا حصہ بھی نہیں ہے۔

عدالت عظمی نے پہلے ہی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو آئین کے آرٹیکل 8 (3) اور آرٹیکل 199 (3) میں استعمال ہونے والی زبان کے فرق کو سمجھنے میں مدد کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ آرمی ایکٹ کے تحت کسی شہری پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں

آرٹیکل 8 (3) میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی قانون سے متضاد یا بنیادی حقوق کی تضحیک کرنے کو کالعدم سمجھا جائے گا لیکن یہ شق مسلح افواج کے اہلکاروں یا پولیس یا دیگر فورسز کے لیے نہیں جو عوامی احکامات پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے جس کی وجہ ان میں نظم و ضبط کو یقینی بنانا ہے۔

جبکہ آرٹیکل 199 (3) سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے کہ اگر قانون کے حوالے سے کوئی اور چارہ نہ ہو تو وہ اپنے دائرہ اختیار میں توسیع کرے تاہم اگر مسلح افواج کے اہلکاروں کی بات ہو تو اس کے دائرہ اختیار پر پابندی ہے۔

4 مارچ کے اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ نے مشاہدہ کیا کہ دو دفعات، آرٹیکل 8 (3) اور آرٹیکل 199 (3)، کے درمیان تفریق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی اے اے کا شکار بنائے گئے افراد کو بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔

جب اس کیس کا 13 مئی کو دوبارہ آغاز کیا جائے گا تو وفاقی حکومت موجودہ مقدمے کے حقائق اور حالات میں ان آئینی شقوں کے عمل اور اس کے اثر سے متعلق عدالت کو معاونت فراہم کرے گی۔

اکاؤنٹنٹ جنرل عدالت کو پی اے اے کے سیکشن 94 کے تحت فیصلوں کی آزادی کے اختیار پر اثرات میں معاونت کریں گے جو پریذائیڈنگ آفیسر کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے کہ آیا عوامی جرائم کے ملزم پر فوجداری عدالت کے تحت مقدمہ چلایا جائے یا کورٹ مارشل جبکہ جرم کی نوعیت دونوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

انعام الرحیم، جو فوج کے سابق وکیل ہیں، کو فوجی حکام نے راولپنڈی میں ان کے گھر سے 17 دسمبر 2019 کو حراست میں لیا تھا تاہم 22 جنوری کو وفاقی حکومت نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ حراست میں لیے گئے وکیل کو رہا کردیا گیا ہے۔

اس وکیل کو الزامات کے باوجود رہا کردیا گیا تھا کہ اور اس وقت سابق اکاؤنٹنٹ جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق حساس نوعیت کی اطلاعات، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ساتھ ساتھ کچھ افسران کی تعیناتی کے حوالے سے معلومات انعام الرحیم کے لیپ ٹاپ سے حاصل کی گئیں جو وہاں سے کہیں منتقل بھی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار، رہائی کا حکم

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں نوٹ کیا تھا کہ عدالت کو فراہم کردہ مہر بند لفافے میں دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مدعا علیہ (انعام الرحیم) سے سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 اور پی اے اے 1952 سمیت اس کے تحت ہونے والے جرائم کے تحت تفتیش کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر اپنی اپیل میں سیکریٹری دفاع اور داخلہ نے استدعا کی تھی کہ ہائی کورٹ کے ذریعہ موجودہ کیس کا فیصلہ آنے تک اس کا حکم معطل کردیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وکیل کے خلاف تحقیقات کا عمل جاری ہے اس کے علاوہ مادی شواہد بھی ملزم کے خلاف اکھٹے کیے گئے جس کی وجہ سے اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے اس مرحلے پر حراست میں لیے گئے شخص کی رہائی پر سنگین الزامات کی تحقیقات کے سارے عمل میں رکاوٹ ڈالے گی۔

بعد ازاں انعام الرحیم نے میڈیا کو بتایا کہ حساس معلومات سے لیس ان کا لیپ ٹاپ اب بھی ان کے پاس ہے اور اسے نہ تو چھینا گیا ہے اور نہ ہی اسے چلانے کے لیے کسی پاس ورڈ کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں