ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار، رہائی کا حکم

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2020
انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا تھا — تصویر: شٹر اسٹاک
انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا تھا — تصویر: شٹر اسٹاک

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے وزارت دفاع کے تحویل میں موجود وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

ہائی کورٹ نے 3 جنوری کو مذکورہ وکیل کے بیٹے کی جانب سے ان کے اغوا کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر کے وفاق اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کیے تھے۔

گزشتہ سماعت میں جسٹس وقاص رؤف نے کہا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ ہابیئس کارپس (زیر حراست شخص کو عدالت میں پیش کرنے کی درخواست) سے متعلق ہے اس لیے عدالت کو اس حوالے سے قانونی سوالات کا جائزہ لینے کے لیے وقت درکار ہے، بعد ازاں سماعت ایک ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف درخواست سماعت کیلئے منظور

آج ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس وقاص رؤف نے وفاقی حکومت کا موقف مسترد کردیا۔

سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی، جیک برانچ کے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈیئر فلک ناز اور وزارت داخلہ کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی حراست غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم سنادیا۔

خیال رہے کہ 20 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اور داخلہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی موجودگی کے حوالے سے بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: زیر حراست وکیل سے رازداری قانون کی ’خلاف ورزی‘ کی تفتیش جاری ہے، وزارت دفاع

وزارت داخلہ نے ان کی موجودگی سے انکار کیا تھا جبکہ وزارت دفاع نے اعتراف کیا تھا کہ وکیل کو پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

تاہم وزارت دفاع کے نمائندے نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ زیر حراست وکیل نے کس طرح کی خلاف ورزی کی تھی۔

جس پر ان کے وکیل ایڈووکیٹ احسان الدین شیخ نے کہا تھا کہ اگر انعام الرحیم نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی بھی ہے تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے جبکہ ان کی گمشدگی کے 3 ہفتے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ان کی موجودگی کے مقام کے بارے میں بتایا گیا۔

خیال رہے کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کے مقدمات کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری، عدالت

اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔

وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں موجود ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور انہیں جبراً اغوا کرتے ہوئے اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں