صوبوں سے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے 110 ارب روپے مختص کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 16 جون 2020
اسد عمر کا کہنا ہے کہ جی 20 ممالک کے ذریعہ پاکستان کے قرضوں کی نام نہاد ری شیڈولنگ کا ملک کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا— فائل فوٹو:رائٹرز
اسد عمر کا کہنا ہے کہ جی 20 ممالک کے ذریعہ پاکستان کے قرضوں کی نام نہاد ری شیڈولنگ کا ملک کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا— فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: وفاق نے صوبوں سے کہا ہے کہ وہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے حصص کی مناسبت سے قبائلی علاقوں کی خصوصی ترقی اور صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے آئندہ سال کے اپنے بجٹ میں سے مشترکہ طور پر 110 ارب روپے مختص کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا کہ چین سے دوطرفہ میکانزم کے تحت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے متعلق معاملات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی-20 ممالک کے ذریعے پاکستان کے قرضوں کی نام نہاد ری شیڈولنگ کا ملک کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔

مزید پڑھیں: حکومت سے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی فراہمی سے انکار پر وضاحت طلب

انہوں نے وضاحت دی کہ جی-20 ری شیڈولنگ سے پاکستان کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ نیٹ پریزنٹ ویلیو (این پی وی) نیوٹرل ہوگا اور قرض کی ادائیگی 18 ماہ کے لیے مؤخر ہوگی جبکہ اس کے بعد ان 18 ماہ کے سود بھی بقایا جات پر لاگو ہوجائیں گے اور وہ قابل ادا بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قرض مؤخر ہونے سے ملک کو صرف اس حد تک فائدہ ہوگا کہ نقد بہاؤ میں تاخیر ہوگی۔

کورونا وائرس اسکیم

دوران گفتگو اسد عمر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کورونا وائرس ردعمل سے متعلق منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے کی کثیر مقصدی اسکیم مختص کی ہے جبکہ وہ اس میں سے 50 ارب روپے پورے ملک میں خصوصی صحت کے شعبے کے منصوبوں کے لیے برابر کی بنیاد پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں سے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں (ڈی ایچ کیوز) کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے 50 ارب روپے کی مساوی رقم فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔

100 ارب روپے کی اس رقم سے ضلعی اسپتالوں کو اس سطح پر بہتر کرنے کے لیے یہ ملک کا اب تک کا سب سے بڑا قدم ہے جس میں مریضوں کو صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی یا ہسپتالوں پر دباؤ کی وجہ سے شہروں کی جانب جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسا کہ حال ہی میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے دیکھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر صوبوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ ملک کی پوری قومی قیادت نے تقریباً دو سال قبل وعدہ کیا تھا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی پر اگلے 10 برسوں کے لیے ہر سال مشترکہ طور پر 100 ارب روپے خرچ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام تقریباً ایک سال کی تاخیر کے بعد شروع ہوا اور رواں سال تقریباً 24 سے 25 ارب روپے اس پر خرچ ہوسکتے ہیں جبکہ اگلے سال اسے 60 ارب روپے تک کردینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے وقت مانگ لیا

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ معاملہ گزشتہ سال این ایف سی کی سطح پر اٹھایا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اپنے حصص کے مطابق فنڈز مہیا کرنے چاہئیں۔

اسد عمر نے کہا کہ مرکز نے اب تک 40 فیصد وفاقی حصہ فراہم کردیا ہے اور توقع کرتے ہیں کہ صوبے 30 سے 35 سال تک تباہی اور محرومی کا سامنا کرنے والے اس خطے کے لیے اپنا حصہ ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے کے نام پر بہت سارے فنڈز خرچ ہو چکے ہیں اور ڈالر وصول ہوئے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں مل سکا جبکہ عدم استحکام کی دشمن قوتیں اس خطے میں بہت متحرک ہیں جس کی قیمت تمام صوبوں کو برداشت کرنا ہوگی۔

دوران گفتگو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آئی پی پیز پر تحقیقاتی رپورٹ کے اجرا کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد چینی حکومت کے مطالبے پر روکا گیا ہے ہے تو اس کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ چین سے تعلقات کی حساسیت فیصلے کا ایک پہلو ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی میکانزم موجود ہے جس پر اس طرح کے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے کو دو طرفہ میکانزم کے تحت پہلے ہی اٹھا چکی ہے اور چینی حکومت اس کے لیے تیار ہے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت مختلف منصوبوں کے لیے تقریباً 77 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں نجی شعبوں میں تیار ہونے والے توانائی منصوبے شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت توانائی کے شعبے میں ٹرانسمیشن منصوبوں سمیت مزید منصوبے آرہے ہیں کیونکہ اگلا چیلنج کراچی سمیت جنوبی حصے میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب ہے جبکہ بجلی پیدا کرنے والے منصوبے زیادہ تر شمال میں واقع تھے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاہور-مٹیاری ٹرانسمیشن لائن پر ترقی کا کام جاری ہے جبکہ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کا ایک نیا میگا پروجیکٹ اگلے سال کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں؛ قبائلی اضلاع کے انتخابی نتائج کا اعلان، آزاد امیدوار سرفہرست

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اب دونوں فریقین کو 7 ارب ڈالر سے زیادہ کے منصوبے کے لیے مالی قربت حاصل کرنا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے اس منصوبے کے لیے تقریباً 85 فیصد کی مالی اعانت کی پیش کش کی ہے جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا حصہ 90 فیصد تک بڑھ جائے۔

اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے ایم ایل ون منصوبے کے لیے پی ایس ڈی پی میں رقم مختص کی ہے اور امید ہے کہ بہت جلد 90 فیصد چینی فنڈز حاصل کرلیے جائیں گے اور آئندہ سال فروری سے اپریل تک اس منصوبے کی باضابطہ تعمیر شروع کر کے 9 برسوں میں اس کی تکمیل مکمل کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت بجلی کی دو ہزار میگاواٹ صلاحیت کے حامل دو بڑے منصوبے اب مکمل ہو چکے ہیں اور اگلے سال کے ترقیاتی منصوبے میں ژوب سے کچلاک، یارِک سے ژوب اور برہان سے ہکلہ سمیت تین بڑی سڑکوں کے منصوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے رواں سال پی ایس ڈی پی کے لیے 701 ارب روپے مختص کیے ہیں جس میں پلاننگ کمیشن کے تحت 500 ارب روپے کے منصوبے اور وزارت خزانہ کے ذریعے لگ بھگ 151 ارب روپے شامل ہیں۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس جس کی وجہ سے تمام ترقیاتی سرگرمیاں رک گئی تھیں لیکن اس کے باوجود پلاننگ کمیشن نے 505 ارب روپے میں سے 442 ارب روپے خرچ کیے تھے مزید یہ کہ منصوبہ بندی کمیشن 80 فیصد فنڈنگ کے استعمال کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا حالانکہ زیادہ سے زیادہ خرچ عام طور پر آخری سہ ماہی میں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام تک مختص کیے گئے 701 ارب روپے میں سے مجموعی طور پر 530 ارب روپے کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں