سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قبول کرلی جس میں انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا تھا۔

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے گزشتہ سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کردہ شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا۔

اگرچہ بیشتر لوگوں نے اس فیصلے کو ایک تاریخی فیصلے کے طور پر قابل ستائش سمجھا لیکن بعض لوگوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بہت دور تک جائے گا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حافظ عبد الرحمٰن انصاری نے ایک بیان میں عدالت عطمیٰ کے فیصلے کی 'انتہائی تعریف' کی اور کہا کہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے بنیادی مقصد کو برقرار رکھا گیا۔

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے 'آزاد عدلیہ کو محکوم بنانے اور دباؤ ڈالنے کے لیے حکومت کے مذموم اور ناپسندیدہ اقدام کو مایوسی ہوئی ہے'۔

پی بی سی نے یہ بھی اعلان کیا کہ تمام بار ممبران 22 جون کو یوم تشکر منائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تاریخی فیصلے اور قانون کی حکمرانی کی کامیابی، عدلیہ کی آزادی اور آئین پسندی کی فتح کے طور پر جشن منائیں گے۔

سپریم کورٹ کے وکیل زاہد ایف ابراہیم نے کہا کہ عدالت نے اپنی آزادی پر حملے کی بدنیتی پر مبنی کوشش کو ناکام بنا دیا، اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ یہ مالی احتساب کے لیے کھلی ہے۔

بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ کی قانونی مشیر ریما عمر نے کہا کہ اس کیس کا معاملہ ‘ابھی ختم نہیں ہوا’ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تفصیلی فیصلے میں ‘یہ واضح کرنا چاہیے کہ صدارتی ریفرنس (حقیقی شکایات) کے معیار پر کیوں پورا نہیں اترا'۔

لا اینڈ پالیسی ریسرچ نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اسامہ صدیق نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر کیوں کھیل کا نشانہ بنی؟ یقیناً یہ معاملہ اب صرف اہلیہ سے متعلق ہے، کیا کوئی اور چیز دریافت ہوسکتی ہے جو ایف بی آر، سپریم کورٹ / سپریم جوڈیشل کونسل میں واپس لے جائے تاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دوبارہ کھینچ لیا جائے، ہر صورت میں ابھی تلوار لٹک رہی ہے'۔

وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ غیر سنجیدہ رویے کا خاتمہ ہمیشہ ناکامی پر ہوتا ہے۔

وکیل تیمور ملک نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا جیسے معاملہ ختم ہوچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت اور عدلیہ 'دوسرے اہم کاموں پر توجہ مرکوز' کرلے تو یہ بہتر ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں