ان دنوں ہم اپنی زندگی کے اکثر فیصلے موٹیویشنل اسپیکروں (حوصلہ افزائی کرنے والے خطیبوں)، خود اصلاحی پر مبنی کتابوں اور یوٹیوب ویڈیوز سے متاثر ہوکر کرتے ہیں۔

جب کبھی ہم کوئی موٹیویشنل ویڈیو دیکھتے ہیں یا کسی موٹیویشنل اسپیکر کو سنتے ہیں تو ہم اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ اثر زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتا اور اپنے اندر دوبارہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں دوبارہ ایسے مواد کی ضرورت پڑجاتی ہے۔

موٹیویشنل اسپیکر کو سننے اور اصلاحی کتب کے مطالعے کی اس مسلسل طلب نے ہمارے اندر ایسی لت پیدا کردی ہے جو ہمیں حوصلہ افزا مواد کے بغیر تحرک لینے نہیں دیتی ہے۔

جو لوگ زندگی میں الجھنوں کا شکار ہیں اور جنہیں یہ معلوم نہیں کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے انہیں کسی موٹیویشن یا حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں، بلکہ احساسِ بیداری کی ضرورت ہے۔ وہ جس نیند میں غرق ہیں انہیں اس بات کا احساس اور اس میں سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ دراصل کچھ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی انہیں تحرک اور حوصلہ دینے کے لیے کافی ہے۔

پڑھیے: ماہانہ تنخواہ: خطرناک ترین نشوں میں سے ایک نشہ

یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کو حوصلہ افزائی کی کوئی ضرورت نہیں، جس چیز کی ضرورت ہے وہ عزم اور خود میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

جو لوگ خواب دیکھتے ہیں، پھر اپنے آرام دہ گوشوں میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنے خوابوں کو رسوا کرنے کے ساتھ خود سے متعلق شکوک و شبہات سے اپنے اعتماد کو مار رہے ہوتے ہیں۔

اگر ایک موٹیویشنل اسپیکر آپ میں تحرک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آپ اسے سنے بغیر اپنے اندر کچھ کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ہیں تو یاد رکھیے ایک دن وہی اسپیکر آپ کی سب سے بڑی کمزوری بن جائے گا۔ اگر آپ خود سے تحرک نہیں لے سکتے تو پھر آپ خود سے آگے کیسے بڑھیں گے اور اپنے ماضی سے کس طرح سبق حاصل کریں گے۔

ایک وقت ایسا تھا جب میں نے بھی لوگوں کو حوصلہ دیا اور اس عمل میں اپنی حوصلہ افزائی کے لیے ویڈیوز دیکھنا شروع کردیں۔ مگر ویڈیوز نے مجھے اپنا عادی بنا دیا اور اس عادت نے مجھ میں سست روی پیدا کردی چنانچہ یہ ویڈیوز بالکل بھی مددگار ثابت نہ ہوئیں۔

حقیقی طور پر ہمیں حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت ہے تو نظام کی۔ ہمارے ملک میں ایک نظام رائج ہے اور وہ نظامِ جمہوریت ہے۔ ہمارا ملک اپنے لیڈران کو فیصلہ سازی کے لیے یوٹیوب ویڈیوز دیکھنا فرض قرار نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کو ہرگز کسی ایسے مقرر کی ضرورت نہیں جو ہمارے لیڈران کو بتائے کہ کہاں کتنا پیسہ لگانا ہے؟ اور نہ ہی ہمارے ملک کو بجٹ کا اعلان کرنے کے لیے کسی حوصلہ افزا کتاب کا سہارا نہیں لینے کی ضرورت ہے۔

پڑھیے: ’مجھے یہ جاننا ہے کہ میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں‘

جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں ایک نظام رائج ہے اور یہ ملک اسی نظام کے تحت حوصلہ افزائی کی مسلسل لت کے بغیر کام کرتا ہے۔

آپ کو بھی اسی طرح کے ایک نظام کی ضرورت ہے جو خود سے فعال رہتا ہو اور عقلی وجوہات کی بنا پر آگے بڑھنے کے لیے اپنے مقام اور منزلوں کی حقیقت اجاگر کرتا ہو۔ مثلاً، اگر آپ کا موجودہ مقام نکتہ الف ہے اور آپ کی منزل نکتہ ی ہے، لیکن آپ اس وقت نکتہ ت پر ہی اٹکے ہوئے ہیں، تو نکتہ ت پر اٹکے ہونے کی حقیقت ہی دراصل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کی وجہ ہونی چاہیے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ موٹیویشنل اسپیکر، کتابیں اور ویڈیوز فضول ہیں۔ نہیں بالکل نہیں، مگر جب آپ اپنے اندر مقصد اور اہداف پر مبنی ایک نظام وجود میں لاتے ہیں تو پھر یہ نظام خود سے پھلتا پھولتا ہے اور خود کو ایک بڑے اور غیر معمولی قوت میں تبدیل کردیتا ہے۔

آپ کو اپنے اندر سے دیگر افراد اور دیگر چیزوں کی لت کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ ان سے آپ کو مدد نہیں ملنے والی۔ آپ کو ایک مؤثر اور حوصلہ افزا نظام وجود میں لانا ہوگا جو خود کار ہو اور جسے چلانے کے لیے دوسری چیزوں کی ضرورت نہ پڑتی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو ابھی اسی لمحے یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ کو ایک سادہ سی زندگی کی خواہش ہے جس میں آپ کو کوئی بھی چیز درکار نہیں تو آپ پھر سادگی سے رہیے اور دیگر کئی لوگوں کی طرح زندگی گزاریے۔ لیکن اگر آپ نے کچھ خواب دیکھے ہوئے ہیں اور اس دنیا کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو پھر اپنا ایک سیکنڈ بھی ضائع مت ہونے دیجیے۔

مزید پڑھیے: قدم قدم پر ٹھیک فیصلے کرنے سے متعلق کچھ ضروری باتیں

اگر آپ نے ایک سیکنڈ بھی ضائع کیا تو پھر آپ کے اندر موجود نظام مقصد سے منقطع ہوجائے گا اورپھر متحرک ہونے کے لیے کسی موٹیویشنل اسپیکر یا کسی کے حوصلے کی تلاش شروع کردے گا۔

دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھنے کی صلاحیت رکھنے والے اپنے خوبصورت اور شاندار سپنوں کو پورا کرنے کے لیے آپ خطیبوں پر انحصار نہیں کرسکتے بلکہ ان خوابوں کو اس نئے مؤثر نظام سے جوڑیے جسے کسی حوصلے کی ضرورت نہیں کیونکہ موٹیویشنل اسپیکر صرف حوصلہ دیتا ہے اور منزل پر پہنچنے کے لیے صرف حوصلہ ہی دے سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے اندر ایک مؤثر نظام موجود ہوگا تو پھر یہ آپ کو منزل تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔

خود کو یہ بتانے کے لیے آپ کو روبن شرما، اینٹونی روبنز یا 'کامیابی کا نسخہ' جیسے موضوعات پر مبنی کتب کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی طرح کیسے بنا جائے؟ دنیا کو اپنا اصل مقام دکھانے کے لیے آپ کو صرف خود آپ کی ہی ضرورت ہے کیونکہ آپ کی اصل منزل بھی وہی مقام ہے جہاں آپ اپنے بل بوتے پر پہنچتے ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے میگزین ینگ ورلڈ میں 27 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Hanif Jul 03, 2020 09:52pm
Not Agreed
ABDUL WAHEED Jul 04, 2020 06:23pm
Fabolus