لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

حال ہی میں حکومتِ سندھ کی جانب سے جو جے آئی ٹی رپورٹس منظرِ عام پر لائی گئی ہیں ان میں ایسی کوئی نئی بات شامل نہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی ہو۔

ان رپورٹس پر جاری تازہ مباحثے کا محور سنگین جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے زیادہ سیاسی چال بازیوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے۔

کسی الماری میں دھول مٹی میں اٹی ان رپورٹس کو منظرِ عام پر لانے سے جرم اور سیاست کے مذموم گٹھ جوڑ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانکاری تو مل سکتی ہے مگر ان سے فقط آدھا سچ ہی جاننے کو ملے گا، کیونکہ کھیل کے چند کھلاڑی ہمیشہ مخفی ہی رہیں گے۔

سیاسی قتل اور مالی جرائم سے لے کر دہشت گرد حملوں جیسے مختلف معاملات پر متعدد جے آئی ٹی رپورٹس پہلے بھی تیار ہوئی ہیں جنہیں مکمل ہونے کے بعد سرد خانے میں ڈال دیا جاتا اور پھر سیاسی مقاصد کے لیے جب جی چاہتا استعمال کرلیا جاتا۔

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سندھ حکومت نے انتہائی مجبوری میں یہ رپورٹس جاری کیں اور اس مجبوری کی وجہ بنی وفاقی وزیر برائے ساحلی امور علی زیدی کی وہ تقریر جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت پر ملک کے سب سے بڑے شہر کو صریح لاقانونیت اور تشدد میں جکڑے رکھنے کے ذمہ دار مجرموں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا۔

مزید پڑھیے: پڑوسی نے اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرکے ایک تیر سے 2 شکار کرنے کی کوشش کی

حکومتِ سندھ کی جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے علی زیدی نے بڑی آسانی سے جرم میں ملوث ان چند شراکت داروں کو نظر انداز کردیا جو اب پاکیزہ قرار دیے جاچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حقیقی قوتوں سے اتحاد جو کرلیا ہے۔

جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ کو کسی بات کا ڈر نہیں ہوتا ہے۔

جس جے آئی ٹی رپورٹ کو سب سے زیادہ توجہ ملی اس کا تعلق بدنام گینگسٹر عزیر جان بلوچ سے ہے جو لیاری گینگ وار کے سرغنہ کے طور پر مشہور ہیں۔

یاد رہے کہ مقدمے کی غرض سے قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کے حوالے کیے جانے سے پہلے چند برسوں تک عزیر بلوچ فوجی تحویل میں رہے تھے اور اس دوران انہوں نے مبیّنہ طور پر 150 سے زائد افراد کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ عزیر بلوچ پر بیرونی ملک کے لیے جاسوسی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ ان کی کہانی بولی وڈ کی کسی کرائم تھرلر فلم کی کہانی جیسی لگتی ہے۔

بلاشبہ ان پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مگر اب بھی بہت سے سوالوں کے جوابات دستیاب نہیں۔ یقینی طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایک ایسے فرد کی مبیّنہ سرپرستی سے متعلق بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے جس نے کراچی کے ایک حصے کو جنگ کا میدان بنا دیا تھا۔

پیپلزپارٹی سے عزیر بلوچ کی وابستگی سے انکار کرنا تو تقریباً ناممکن ہے لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والی دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ بھی ان کے روابط سے متعلق اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔

2016ء میں دبئی میں ایک معقول عرصے تک حراست میں رہنے اور پھر پُراسرار طور پر غائب ہوجانے کے بعد کراچی کے مضافاتی علاقے میں رینجرز کے ہاتھوں ان کی گرفتاری نے ہر قسم کے سازشی نظریے کو جنم دیا۔ کچھ رپورٹس تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ عزیر کی گرفتاری کے باضابطہ اعلان سے پہلے وہ کئی ماہ تک سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہے۔

لیاری گینگ کیس میں ذوالفقار مرزا کے مبیّنہ کردار پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خاموشی حیران نہیں کرتی۔ طاقتور سابق صوبائی وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزا امن کمیٹی کے اہم سرپرست تھے۔ اپنے پرانے دوست اور سابق صدر آصف علی زرداری سے راہیں جدا کرنے والے ذوالفقار مرزا عزیر بلوچ کے ساتھ اپنی وابستگی کے بارے میں کھل کر بات کرنا کبھی نہیں چاہیں گے۔

مزید پڑھیے: سیاست، ایک غلیظ کھیل کیوں بن گیا؟

یہ بات الجھن میں ڈال دیتی ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے اشتہاری مجرم کو تحفظ فراہم کرنے پر ذوالفقار مرزا سے سوال کیوں نہیں کیا۔ سابق وزیرِ داخلہ نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے امن کمیٹی کے ممبران کو سیکڑوں کی تعداد میں اسلحہ لائسنس جاری کیے تھے، وہی امن کمیٹی جو آگے چل کر پیپلز پارٹی کی مسلح ونگ میں بدل گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق جب سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار مرزا کو دی گئی 2 شوگر ملیں واپس لیں تو انہوں نے اپنے پرانے دوست سے ناطہ ختم کرلیا۔ وہ عزیر بلوچ سے منہ پھیرنے پر بھی اپنی پارٹی سے ناخوش تھے کہ جن کے خلاف حکومتِ سندھ نے ایک موقعے پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے تھے۔ خیر اب تو ذوالفقار مرزا پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی ہیں اور ان کی اہلیہ وفاقی وزیر ہیں۔

عزیر بلوچ اور امن کمیٹی کی سرپرستی کرنے والی ایک اکیلی پیپلزپارٹی نہیں ہے۔ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک موقعے پر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے انہیں اپنی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق آخر میں ان کا پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ دیکھنے کو ملا لیکن بظاہر ہے یہ یکطرفہ معاملہ ہی رہا۔ یہ خبریں بھی سننے کو ملیں کہ چند ملکی انٹیلی جنس اداروں نے اس علاقے سے کام کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں پر نظر رکھنے کے لیے بھی انہیں استعمال کیا تھا۔

سیاست اور جرم ایک گہرا آپسی تعلق قائم کرلیتے ہیں۔ دونوں جانب ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت حاصل کی جائے۔ سیاست کو اثر و رسوخ خریدنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور جرم کو اپنا دھندہ جاری رکھنے کے لیے سیاست کا تحفظ درکار ہوتا ہے۔ مگر 2012ء میں 250 افراد کی جانیں لینے والے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے معاملے میں جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ سے بڑھ کر اور کوئی شے صدمے میں مبتلا نہیں کرسکتی۔

مزید پڑھیے: ہماری سیاست کو کس نے خراب کیا؟ غربا نے یا امیر اور پڑھے لکھوں نے؟

واقعے کی جی آئی ٹی رپورٹ اگرچہ پہلے ہی لیک ہوگئی تھی لیکن یہ سیاست میں جرم کی آمیزش کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ شواہد کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکنان نے فیکٹری مالکان سے بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کوآگ لگا دی تھی اور مبیّنہ طور پر یہ جرم پارٹی رہنماؤں کی ہدایات پر کیا گیا تھا۔

فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کا انکشاف تو صرف اس پورے معاملے کا ایک معمولی سا مظاہرہ ہے، کیونکہ ماضی میں تو یہ سیاسی جماعت قتل سے لے کر بھتہ خوری جیسے الزامات کا سامنا کرچکی ہے۔ پارٹی کا ایک دھڑا اس وقت حکمراں جماعت پی ٹی آئی کا اتحادی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس واقعے پر روشنی ڈالنے سے خود کو باز رکھا ہوا ہے۔

صرف کراچی ہی وہ واحد جگہ نہیں جہاں جرم اور سیاست آپس میں ملتے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پاکستان تیزی سے ایک ایسے ملک میں بدل رہا ہے جہاں ریاست اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی ذمہ داری بھی پوری کرنے سے قاصر نظر آتی ہے یا پھر اپنے شہریوں کو برائے نام ہی تحفظ اور نظم فراہم کرتی ہے۔ جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ کو کسی بات کا ڈر نہیں ہوتا۔

تاہم جس انداز سے جے آئی ٹی رپورٹس کو سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے وہ بہت ہی مایوس کن ہے۔ مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے سیاسی طاقت کے کھیل میں انہیں مخالفین کے خلاف آلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

ہم نے ماضی میں بھی اکثر یہی دیکھا ہے کہ کس طرح سنگین جرائم میں سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کی براہ راست شمولیت پر سیاسی ضرورت کے باعث خاموشی اختیار کرلی جاتی اور پھر کس طرح حساب کتاب برابر کرنے کے لیے ایسے معاملات کو زندہ کیا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس بار بھی شدید خدشہ ہے کہ عزیر بلوچ بھی شاید سیاسی بساط پر ایک پیادہ بن کر رہ جائیں گے۔


یہ مضمون 8 جولائی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں