6 سنسنی خیز سیزنز کے بعد نیٹ فلیکس نے پرائم ٹائم میں نشر ہونے والا کامیڈی ٹاک شو پیٹرائٹ ایکٹ کو اچانک ختم کردیا تھا جس پر مداحوں نے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ برہمی کا اظہار بھی کیا تھا۔

یہ شو اہم گفتگو کے ذریعے جدید ثقافتی اور سیاسی منظر ناموں کی گہرائیوں کو پیش کرتا تھا لیکن ظاہری طور پر یہ جن باتوں کا پرچار کرتا تھا ان پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔

خاص طور پر یہ شو ان خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوگیا جنہوں نے اس کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

جون میں صحافی اور ایڈیٹوریل پروڈیوسر شیلا وی کمار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ جب وہ حسن منہاج کے ساتھ پیٹرائٹ ایکٹ میں کام کررہی تھیں تو وہ اس کے مقابلے میں کبھی اتنی ناخوش نہیں تھیں۔

تاہم شیلا وی کمار نے ناخوش ہونے سے متعلق تفصیل نہیں بتائی لیکن وہ واحد ملازم نہیں تھیں جن کا مایوس کن تجربہ رہا۔

پاکستانی لکھاری نور نسرین نے شو کے سیٹ پر گزارے گئے وقت سے متعلق آواز اٹھائی اور بتایا کہ کیمرے بند ہونے کے درمیان انہیں کیا برداشت کرنا پڑا۔

 انہوں نے کہا کہ اکثر لوگوں نے مجھ سے پیٹرائٹ ایکٹ سے متعلق بات کرنے کا کہا ہے لیکن میں نے اس سے گریز کیا کیونکہ ہر مرتبہ میں ان توہین آمیز، نشانہ بنائے جانے اور نظر انداز ہونے کے تجربے کو برداشت کرتی ہوں، میں ڈپریشن کے انہی دنوں میں واپس چلی جاتی ہوں۔

شو میں کام کی ضرورت سے آگاہ ہونے اور اسی شو کی وجہ سے وسیع موقع ملنے پر انہیں یقین تھا کہ اس وقت ٹوئٹ کرنے سے شاید ان کی مدد نہ ہوپاتی۔

 نور نسرین نے مزید کہا کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ میں اس ذہنی اذیت کی مستحق تھی جو میں نے گزشتہ چند مہینوں میں برداشت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری خواہش ہے کہ کاش ہمارے پاس اب بھی پیٹرائٹ ایکٹ، میری یہ بھی خواہش ہے کہ وہ حقیقت میں ان ترقی پسند اخلاقیات پر عمل کرتے جو وہ اسکرین پر دکھاتے تھے تو پھر وہ حقیقت میں آپ کی محبت کے مستحق ہوتے۔

نور نسرین کے ٹوئٹس کے بعد پیٹرائٹ ایکٹ میں شامل افراد نے بھی یہ نکتہ اٹھایا کہ کس طرح وہ ون مین شو نہیں تھا بلکہ وہ کئی افراد کی محنت پر مبنی تھا جن کے ساتھ خوفناک سلوک کیا گیا۔

نیویارک ٹائمز سے ایوا ڈکشٹ نے پوسٹ کیا کہ یہ شو صرف ایک اسٹار کی قابلیت اور کرشمہ نہیں تھا، وہ لوگ جن کی محنت نے اسے وہ بنایا جو وہ دکھائی دیتا تھا ان کے ساتھ ہولناک سلوک کیا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے دوست وہاں کام کرتے ہوئے کیسے حالات سے گزرے۔

دوسری جانب پروڈیوسر نے ایمی ژانگ نے سب سے ہمدردی کا اظہار کیا اور تصدیق کی کہ دیگر افراد بھی اس سب سے گزرے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ جاننا صدمہ تھا کہ شیلا اور نور وہ نادیدہ پروڈیوسرز، جنہوں نے ایمازون، سعودی عرب، بھارتی انتخابات میں ہماری کچھ اقساط کو لیڈ کیا تھا انہیں خاموش کرایا گیا اور غیر منصفانہ سلوک کیا گیا، صرف وہ نہیں تھیں جنہیں اس سب سے گزرنا پڑا۔

جس کے بعد پیٹرائٹ ایکٹ کے سابقہ ملازمین نے بھی کام کی جگہ پر تعصب کی مذمت کی.

ایک صارف نے لکھا کہ جہاں پیٹرائٹ ایکٹ جنوبی ایشیا کی نمائندگی اور معاشرتی تبصرے میں اہم ہے لیکن اس کی مذمت بھی کی جانی چاہیے کہ وہ انہیں محفوظ کرنے میں ناکام رہا جو اس کی کامیابی کے ذمہ دار تھے۔

خیال رہے کہ پیٹرائٹ ایکٹ 2018 میں شروع ہوا تھا جو چھ سیزنز پر مشتمل تھا اور اب تک اس کی 39 قسط نشر ہوچکی ہیں۔

اس شو کے آغاز سے ایک برس قبل حسن منہاج نے وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن کی تقریب کی میزبانی کی تھی جسے سراہا گیا تھا۔

پیٹرائٹ ایکٹ کو پی باڈی، ایمی فار آؤٹ اسٹینڈنگ ڈیزائن سمیت مختلف اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔

شو کے اختتام کے باوجود اس کی موجودہ 39 اقساط نیٹ فلکس پر اسٹریمنگ کے لیے دستیاب ہوں گے۔

پیٹرائٹ ایکٹ کے اچانک اختتام پر جہاں مداح غم و غصے کا شکار ہیں وہیں چینج ڈاٹ او آر جی نے اس شو کو واپس لانے کے لیے آن لائن پٹیشن دائر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں