بھارت: شہریت قانون کیخلاف مظاہروں کا منتظم طالبعلم دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار

اپ ڈیٹ 26 اگست 2020
شرجیل امام جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا طالبعلم ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
شرجیل امام جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا طالبعلم ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

بھارتی دارالحکومت کی پولیس نے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک طالبعلم شرجیل امام کو نئی دہلی میں فروری میں ہونے والے فسادات کو برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جس کے بارے میں کہا جا رہا کہ یہ پہلے ملک کے متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کا انتظام کرنے میں ملوث تھا۔

خیال رہے کہ فروری میں دہلی میں بدترین مذہبی فسادات ہوئے تھے جس میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سے 2 تہائی کا تعلق بھارت کی مسلمان برادری سے تھا، یہی نہیں بلکہ مساجد کو بھی نذرآتش کردیا گیا تھا جبکہ ان فسادات میں 15 ہندو بھی ہلاک ہوئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق 31 سالہ تاریخ کے طالبعلم شرجیل امام کو غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا گیا اور اسے پروڈکشن وارنٹ پر آسام سے دہلی لے جایا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت: 'مذہبی فسادات کیلئے اکسانے' کے الزام میں جامعہ ملیہ کا طالبعلم گرفتار

رپورٹ میں کہا گیا کہ شرجیل امام کو لے جانے سے قبل بھی وہ گزشتہ برس شہریت قانون کے خلاف ردعمل دینے پر گوواہتی جیل میں پولیس حراست میں تھا، مزید یہ کہ 21 جولائی کو اس کا کووڈ 19 کا نتیجہ بھی مثبت آیا تھا۔

دہلی کے علاوہ اترپردیش (یوپی) منی پور، آسام اور ارونچل پردیش میں پولیس نے بغاوت کے الزام میں شرجیل امام پر مقدمہ درج کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق طالبعلم پہلے ہی دہلی یونیورسٹی میں اشتعال انگیز تقریر کرکے تشدد پر اکسانے کے لیے تشدد کے 2 مقدمات میں گرفتار ہوچکا تھا۔

بعد ازاں 25 جولائی کو دہلی پولیس نے عدالت کے سامنے جے این یو کے طالبعلم پر ملک کی سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کے لیے مبینہ طور پر لوگوں کو اکسانے کا الزام عائد کیا تھا۔

این ڈی ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے شہریت ترمیمی قانون سے متعلق کیس میں عدالت کے سامنے پیش کردہ چارج شیٹ میں ان الزامات کو لگایا تھا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا کہ 'ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور معاشرے کے ایک خاص طبقے کو غیرقانونی سرگرمیوں اور ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے آمادہ کیا'۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران انہوں (شرجیل امام) نے ایک خاص طبقے کے لوگوں کو اکسایا کہ بڑے شہروں کو جانے والے ہائی ویز کو بلاک کریں اور 'چکا جام' کریں تاکہ معلومات زندگی متاثر ہو۔

ان پر مزید الزام لگایا گیا کہ شرجیل امام نے کھلے عام آئین کی خلاف وزری کی اور اسے 'فاشسٹ' دستاویز قرار دیا۔

اس سے قبل 29 جنوری کو بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف بولنے پر گرفتار کیا گیا تھا جسے بی جے پی نے بغاوت پر مبنی ریمارکس کہا تھا۔

بھارت میں فسادات

خیال رہے کہ 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم محلوں پر حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد کو اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا یا تشدد کرکے موت کی نیند سلادیا گیا تھا جس کے باعث 50 افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بیشتر مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔

ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس آیا کھڑی رہی یا ہجوم کے ساتھ رہی، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔

علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب کہا جارہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں