شہباز شریف کی گرفتاری حکومت کی بزدلی کا ثبوت ہے، شاہد خاقان عباسی

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2020
شاہد خاقان عباسی نے پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹؤ:ڈان نیوز
شاہد خاقان عباسی نے پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹؤ:ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری حکومت کی بزدلی کا ثبوت ہے۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہیں اور آج اس کا عزم ہے کہ بگڑتی ہوئی صورت حال اور ملک میں موجود آمریت کا مقابلہ کرنا ہے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی خطاب کیا اور حکومت کے خلاف سخت احتجاج پر زور دیا۔

مزید پڑھیں:مجھے بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کوئی اور چلا رہا ہے، نواز شریف

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ملک میں جمہوریت کے لیے جگہ تنگ کی جارہی ہے، میڈیا کو دبایا جارہا ہے، انسانی حقوق کو صلب کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں آزادی بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں کم ہورہی ہے، دنیا ترقی کررہی ہے اور پاکستان زوال پذیر ہے، یہ ایسے معاملات ہیں جس پر اپوزیشن خاموش نہیں رہ سکتی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق کوئٹہ میں پہلا جلسہ ہوگا اور اس کے بعد مزید جلسے، ریلیاں، احتجاج اور لانگ مارچ ہوگا اور پوری اُمید ہے کہ پاکستان کے عوام باہر نکلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کل سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور مسلم لیگ (ن) کے ان فیصلوں کی توثیق ہوجائے گی اور پی ڈی ایم کے بڑے ستون کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) اپنا کردار ادا کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ظلم کبھی قائم نہیں رہ سکتا، شہباز شریف صاحب گرفتار ہوگئے لیکن ان کی گرفتاری حکومت کی کمزوری، بزدلی اور اس وزیراعظم کے ہتھکنڈوں کا ثبوت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ نیب بتائیں کہ جب آپ نے ریفرنس دائر کیا ہوا ہے تو پھر گرفتاری کس بنیاد پر کر رہے ہیں، اگر چیئرمین نیب غیرجانب دار ہیں تو پھر بتائیں کہ شہباز شریف کے ضمانت کے وارنٹ پر دستخط کیوں کیے۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن اتحاد 'پی ڈی ایم' کا 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ جب ٹرائل ہورہا ہے اور ریفرنس دائر ہوچکا ہے تو گرفتاری کا کیا جواز بنتا ہے، یہ جمہوریت اور اپوزیشن کو دبانے کی کوشش ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا اپنا ڈھانچہ ہے جو اس ہفتے کے آخر تک حتمی شکل اختیار کرجائے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے جو باتیں کی ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنا علاج کروا کر واپس آئیں گے، ہمارا ان کو یہی مشورہ ہے باقی فیصلہ ان کا ہوگا۔

میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو تاریخ پر چھوڑیں، ہم نے تاریخ پر چھوڑا تھا لیکن باہر نکالا جارہا ہے کیونکہ یہ باتیں چھپ نہیں سکتیں۔

اے پی سی کے اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اسی لیے اے پی سی کے اعلامیے میں کہا تھا کہ ایک ٹروتھ کمیشن بنائیں تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے، اس میں کسی کی ہتک مقصود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد کسی پر الزام لگانا نہیں ہے لیکن حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں، جب ٹروتھ کمیشن بن جائے تو حاضر ہوکر حقائق بتاؤں گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں 1947 سے تروتھ کمیشن کے حق میں ہوں اس میں جنرل جیلانی اور دیگر کے حوالے سے بھی کمیشن کے حق میں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ٹروتھ کمیشن کوئی جوابدہ نہیں ہوتا بلکہ حقائق رکھے جاتے ہیں، 1947 سے اب تک کے حقائق رکھیں گے تو ہر کسی کا نکتہ نظر سامنے آتا ہے اور عوام دیکھیں گے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ

پی ڈیم ایم کے احتجاج سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خدشے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا احتجاج ہے اور یہ لشکر کشی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اسپیکر اور حکومت چلاتی ہے لیکن ان کا رویہ سب نے دیکھا ہے پارلیمان میں کیا ہوتا ہے، دو سال میں عوام کے ایک مسئلے پر ابھی تک بحث نہیں ہوئی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے واضح بات کی ہے کہ ہم حق کے راستے پر ہیں، پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے باہر نکلے ہیں اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کا نقشہ نظر آئے گا، عوام متحرک ہورہے ہیں، راتوں رات معجزہ نہیں ہوگا، 73 برسوں کی خرابی اور دو سال میں ملک کی جو تباہی ہوئی ہے وہ ایک دن میں دور نہیں ہو گی، ہم نکلیں ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ عوام پورا ساتھ دیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پی ڈی ایم کا پہلا اجلاس ہوا تھا جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کا لائحہ طے کرتے ہوئے 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں اپوزیشن اتحاد کا پہلا جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ اجلاس میں ملک میں جمہوریت کے لیے سکڑتی گنجائش اور آج جس طرح جمہوریت صلب کی جاتی ہے اس کی شدید مذمت کی گئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں آئینی تسلسل اور پارلیمنٹ پر قدغنوں کی مذمت کی گئی، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، معیشت کی تباہی سمیت عوام کی پریشانی جیسے مسائل پر بحث کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'طے ہوا ہے کہ 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا پہلا تاریخی جلسہ ہوگا، جس کے بعد پورے پاکستان میں تحریک کا آغاز ہوجائے گا اور تحریک بڑھتی جائے گی اور پاکستان کو اس غیر جمہوری عمل سے نجات دلا کر کامیاب ہوگی'۔

تحریک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ تمام جماعتیں ان فیصلوں پر متفق ہیں اور یہ تحریک، پاکستان کی تاریخ میں صرف سنہرا قدم ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی سیاسی تبدیلی یہاں سے رونما ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کا گلگت بلتستان کے انتخابات پر بات چیت میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

یاد رہے کہ 20 ستمبر کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل دینے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پڑھ کر سنایا اور حکومت کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پر یقین رکھنے والی اپوزیشن کی جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی اور تحریک کو 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' کا نام دیا گیا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں علاج کے غرص سے لندن میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا تھا اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ویڈیو لنک پر خطاب کیا تھا۔

بعدازاں کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔

اپوزیشن اتحاد نے ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کردیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں