نوازشریف کے وارنٹ کی تعمیل کا معاملہ: پاکستانی ہائی کمیشن کے افسران کا بیان عدالت میں جمع

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
سابق وزیراعظم نواز شریف لندن میں موجود ہیں—فائل فوٹو: عاتکہ رحمٰن
سابق وزیراعظم نواز شریف لندن میں موجود ہیں—فائل فوٹو: عاتکہ رحمٰن

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹس گرفتاری کی تعمیل کے معاملے میں پاکستانی ہائی کمیشن کے لندن کے افسران کا تحریری بیان اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروا دیا گیا۔

عدالت میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے فرسٹ سیکریٹری (قونصلر افیئرز) دلدار علی ابڑو اور ہائی کمیشن کے قونصلر اتاشی راؤ عبدالحنان کا تحریری بیان پیش کیا گیا۔

قونصلر اتاشی نے اپنے بیان میں لکھا کہ لندن میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر 17 ستمبر کو شام 6 بجکر 35 منٹ پر وارنٹ کی تعمیل کے لیے گیا۔

راؤ عبدالحنان کے مطابق نواز شریف کے ذاتی ملازم محمد یعقوب نے وارنٹ گرفتار وصول کرنے سے انکار کیا، لہٰذا نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی بائی ہینڈ تعمیل نہیں ہو سکی۔

مزید پڑھیں: ملزم لندن میں بیٹھ کر حکومت اور عوام پر ہنستا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

ادھر اپنے بیان میں سیکریٹری دلدار ابڑو نے بتایا کہ نواز شریف کے بیٹوں کے سیکریٹری وقار احمد نے مجھے کال کی اور کہا کہ وہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری وصول کریں گے۔

دلدار علی ابڑو کا کہنا تھا کہ وقار احمد کے مطابق وہ نواز شریف کے پارک لین لندن کی رہائش گاہ پر وارنٹ وصول کریں گے، جس پر ہائی کمیشن نے مجھے نواز شریف کے وارنٹس اس پتا پر تعمیل کرانے کی اجازت دے دی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد وقار احمد کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا کہ وہ 23 ستمبر کو دن 11 بجے وارنٹس وصول کریں گے۔

فرسٹ سیکریٹری نے بتایا کہ وقار احمد نے قونصلر اتاشی راؤ عبدالحنان وارنٹس کی تعمیل کے لیے آئیں گے، تاہم برطانیہ کے وقت کے مطابق 10 بجکر 20 منٹ پر وقار نے مجھے کال کرکے وارنٹس وصولی سے معذرت کرلی۔

خیال رہے کہ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے سیکریٹری خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ نواز شریف کی 22 ستمبر کو صبح 11 بجے عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے وارنٹ بھیجے جائیں اور نواز شریف کو عدالت کی جانب سے مقرر کردہ تاریخ میں پیش کیا جائے۔

تاہم سابق وزیراعظم کی وارنٹس گرفتاری کی تعمیل عمل میں نہیں آسکی تھی اور 30 ستمبر کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پر دوبارہ پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے وارنٹس کی تعمیل کے لیے گئے، وہاں موجود شخص نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کردیا۔

دوران سماعت عدالت نے پوچھا تھا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل پر کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ پر وارنٹ بھیجے گئے تاہم ان کی رہائش گاہ پر وقار احمد نامی شخص نے عدالت کے وارنٹ موصول کرنے سے انکار کر دیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ نواز شریف کے وارنٹ کی تعمیل کرانے کی ہرممکنہ کشش کی، جس پر عدالت نے کہا تھا کہ ہم نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، نواز شریف کے وکیل بیان دے چکے ہیں کہ انہیں وارنٹ گرفتاری کا علم ہے۔

خیال رہے کہا کہ اس وقت سابق وزیراعظم نواز شریف لندن میں ہیں تاہم اسلام آباد ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔

نواز شریف، اہلخانہ کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا سیکریٹری خارجہ کو نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کا حکم

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں