مسلم لیگ (ن) نے این اے 120 لاہور میں خلاف قانون ڈھائی ارب خرچ کیے، شہزاد اکبر

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2020
شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) پر خلاف قانون پیسے خرچ کرنے کا الزام عائد کیا—فوٹو:ڈان نیوز
شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) پر خلاف قانون پیسے خرچ کرنے کا الزام عائد کیا—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر 2017 میں لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کرنے کیلئے خلاف قانون ڈھائی ارب روپے ترقیاقی کاموں پر خرچ کیے۔

لاہور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں مریم نواز اور اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومتی مشینری نے این اے 120 کے انتخاب میں دھاندلی کے لیے منصوبہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے لاہور میں ٹریفک انجینیئرنگ اینڈ ٹرانسپورٹ پلاننگ ایجنسی (ٹیپا) کا انتخاب کیا گیا جس کا کام ٹریفک کا کام، سگنلز کی تزئین وآرائش اور سڑکوں کی مرمت کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی لاہور کا دفتر استعمال کرتے ہوئے ٹیپا کی ایجنسی کا استعمال کیا گیا، این اے 120 کے اندر ڈھائی ارب روپے کے لگ بھگ ترقی کے نام پر خرچ کیا گیا۔

مزید پڑھیں:این اے-120: کلثوم نواز کی یاسمین راشد کو شکست، غیرحتمی نتیجہ

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ سراسر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے لیے جاری کیے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت منصوبے کے تحت تمام کام عملی طور پر کیا گیا اور پیسہ گلی محلوں، ڈسپنسریوں پر خرچ کیا گیا اور نقد رقم بھی دی گئی اور اس کے لیے ٹیپا کا ادارہ استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ پیسہ خرچ نہیں ہوسکتا تھا، اشتہار، ٹینڈر اور کسی ٹھیکیدار کو کام کرنے کا حکم بھی نہیں دے سکتے تھے تو ایسے وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب میں ملی بھگت سے وزیراعظم کا خصوصی پروگرام کے تحت پیسہ مختص کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد حسن فواد نے ان اسکیموں کے لیے پرائم منسٹر سسٹینبل فنڈ سے پہلے 505 ملین روپے اور پھر 2 ہزار ملین یعنی ڈھائی ارب روپے مختص کیے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ عملی طور پر سارا کام اور پیسے کی ترسیل اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں کی گئی جبکہ ٹینڈر اور کام کا حکم جنوری 2018 میں جاری کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی بھی کرنی تھی اور پکڑے بھی نہیں جانا تھا جس کے لیے کام پہلے کیا گیا جبکہ پیسے، ٹینڈر اور کام شروع کرنے کے احکامات بعد میں دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیپا کے ذریعے کام کروانا بھی قانون کی خلاف ورزی تھی جس کی تفتیش پنجاب کے انسداد کرپشن کے ادارے نے کی اور نیسپا کا ایک انجینیئر اس وقت بھی نیب کی حراست میں ہے اور ان کے انجینیئرز نے اعتراف کیا ہے انتخاب کے دوران کام کیا ہے جو واضح طور پر قانون کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیب میں طلب کرنے کا مقصد مجھے نقصان پہنچانا تھا، مریم نواز

اپنے الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہ نیسپاک کے انجینیئر، سب انجیئینرز اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے اعترافی بیانات دیے ہیں اور کہتے ہیں کہ حلقہ 120 میں انتخاب کے دوران مریم نواز نے وفاقی حکومت سے فنڈز کا انتظام کیا اور بعدازاں جاتی امرا میں چیئرمین ایل ڈی اے اور چیئرمین ٹیپا کے ساتھ ان فنڈز کے استعمال کا طریقہ کار وضع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز کس حیثیت سے یہ کررہی تھیں اور کس پیرائے میں سرکاری افسران کو جاتی امرا میں بلایا جاتا ہے اور سرکاری فنڈز استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

انہوں نے انجینیئرز کے بیان پڑھ کر سنایا کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایم پی ایز کے ساتھ رابطہ کرکے تمام ترقیاتی کام انتخاب کے دن تک مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔

'کیس نیب منتقل اور الیکشن کمیشن میں ریفرنس جمع ہوگا'

شہزاد اکبر نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی ماجد ظہور اور بلال یاسین کا دفتر میں بیٹھ کر پورے انتخاب میں دھاندلی کی جاتی ہے اور وہی سے پیسے تقسیم کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی انسداد کرپشن کے محکمے نے اس وقت کے ٹیلی فون، تصاویر سمیت دیگر تمام ثبوت کا فرانزک کرایا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ ایک بڑا کیس ہے اس لیے کیس انسداد کرپشن کے صوبائی محکمے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجوا رہے ہیں اور سرکار کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایک ریفرنس بھی بھیج رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس انتخاب کا وقت تو چلا گیا لیکن چیزیں ریکارڈ پر آنا ضروری ہیں اس لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا جائے گا۔

اس موقع پر پنجاب کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ 2017 میں انتخاب کے دوران 32 پٹیشن جمع کرائی تھی اور ٹیپا کے دفتر کے باہر احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب نے شریف برادران اور مریم نواز کے خلاف ایک اور ریفرنس تیار کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ ٹیپا سے مطالبہ کیا تھا کہ گرانٹ کی مد میں جو 2 ارب روپے آئے ہیں کس طرح خرچ ہوئے ہیں اس کو جواب دیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف اس کا حساب مانگنے کے لیے ٹیپا کا گھیراؤ کیا تھا اور جب جواب نہیں ملا توہم نے پٹیشن جمع کرائی جس کے بعد ہائی کورٹ میں گئے اور بتایا کہ انہوں نے دھاندلی کی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ شکر ہے کہ اس وقت جو دعوے میں کررہی تھیں وہ آج سچ ثابت ہورہے ہیں۔

یاد رہے جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد این اے 120 لاہور کی نشست خالی ہوگئی تھی جس پر ضمنی انتخاب 17 ستمبر 2017 کو ہوا تھا جس میں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دی تھی۔

مریم نواز نے انتخاب میں کامیابی کے بعد ووٹرز کےسامنے رکاؤٹیں ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'جب شیر کی پرچی لے کر ووٹ ڈالنے کے لیے گئے تو انھیں کہا گیا کہ آپ کا ووٹ یہاں نہیں ہے لیکن دوسری پارٹی کے نشان سے گئے تو انھیں ووٹ ڈالنے دیا گیا'۔

انھوں نے این اے 120 کےعوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے نواز شریف کے خلاف ہونے والی سازشوں اور جو سازشیں ہوچکی ہیں اور جو سازشیں ابھی ہورہی ہے ان کو ناکام بنایا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ آنے والے وقتوں میں عوام کی حکمرانی چلے گی اور وہی قبول ہوگا جس کے پیچھے آپ لوگ کھڑےہوں گے۔

مریم نواز نے این اے 120 کےمسائل کو فوری حل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کارکنوں سے بھی نواز شریف کا ساتھ دینے اور اپنے ووٹ کے تقدس کو بحال کرنے کا وعدہ لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں