گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کیس کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں مسترد

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2020
سپریم کورٹ نے 13 اگست کو سنائے گئے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے 13 اگست کو سنائے گئے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی تمام درخواستیں خارج کردیں اور حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ بقایاجات کی ریکوری کے لیے 24 کی بجائے 60 مساوی اقساط میں رقم وصول کی جائے۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کے 13 اگست کو سنائے گئے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے نعیم بخاری کو اپنے دلائل نظرثانی درخواستوں تک محدود کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: گیس کمپنیوں کی اپیلیں خارج، 417 ارب روپے ادا کرنے کا حکم

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آپ اپیل نہیں نظرثانی درخواستوں پر دلائل دیں، عدالتی فیصلے میں کوئی کمی ہے تو اس کی نشاندہی کریں ہم اپیلیں نہیں سن رہے۔

جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قدرتی گیس کی پیداوار سرپلس ہے، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ پیدا شدہ گیس وفاقی کی ملکیت ہے یا صوبوں کی ہے؟

نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ جہاں سے گیس پیدا ہوگی اس پر پہلا حق علاقے کے عوام کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو آج تک وہ گیس نہیں مل سکی جو اس کے علاقے سے نکل رہی ہے، خیبرپختونخوا کی گیس کی پیداوار سرپلس ہے، جو گیس کے پی سے نکل رہی ہے اس پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی خیبرپختونخوا نے گیس پر ٹیکس لگانے کی مخالفت کی تھی۔

سماعت میں نجی کمپنیوں کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ حکومت کمپنیوں سے 2 کھرب 95 ارب روپے وصول کر چکی ہے، جو پیسہ حکومت کے پاس ہے اس سے فوری طور پر کام شروع کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کمپنیوں سے مزید ریکوری کرنے سے پہلے موجودہ 2 کھرب 95 ارب روپے استعمال کرے، یہ بہت بڑی رقم ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کمپنیوں سے مزید رقم کی وصولی کو حکومتی ضرورت سے منسلک کیا جائے اس طرح 2 کھرب 95 ارب روپے خرچ کرنے تک انڈسٹری کو مناسب وقت مل جائے گا۔

اس موقع پر جسٹس مشیر عالم نے سلمان اکرم راجا سے دریافت کیا کہ کمپنیوں کو رعایت دینے یا ریکوری کی قسطیں بڑھانے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ قسطوں کی تعداد 24 ماہ سے بڑھا کر 48 ماہ کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: جی آئی ڈی سی کی جانچ پڑتال، فنڈز کے استعمال پر سوالات

سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ آپ انڈسٹری پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں جب چلے گی تب ریکور کر لیں۔

ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتائیں جو 2 کھرب 95 ارب روپے ریکور ہوئے وہ کہاں ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے جواب دیا کہ اس پر ہم 6 ماہ میں کام شروع کر رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ عدالت کو بتائیں کہ فیصلے کے بعد کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ جس پر انہوں نے تمام اقدامات سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس

واضح رہے کہ جی آئی ڈی سی کا معاملہ اس وقت متنازع ہوا جب حکومت نے گزشتہ برس متنازع آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت فرٹلائزر، جنرل انڈسٹری، آئی پی پیز، پاور جنریشن، کے الیکٹرک اور سی این جی سیکٹر وغیرہ جیسے بڑے کاروبار کو 210 ارب روپے کی مالیاتی ایمنسٹی فراہم کی جانی تھی۔

تاہم اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید پر حکومت کی جانب سے آرڈیننس واپس لے لیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی حکومت نے 27 اگست کو صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت صنعتوں سے 420 ارب روپے کے جی آئی ڈی سی تنازع کے حوالے سے تصفیے کی پیشکش کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کسی سیکٹر میں کسی کو رعایت نہیں دی جارہی، عمر ایوب

آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ صنعت، فرٹلائزر اور سی این جی کے شعبے 50 فیصد بقایاجات کو 90 روز میں جمع کرواکر مستقبل کے بلوں میں 50 فیصد تک رعایت حاصل کرسکتے ہیں جبکہ انہیں اس حوالے سے عدالتوں میں موجود کیسز بھی ختم کرنے ہوں گے۔

اس آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ میں لکئی درخواستیں دائر کی گئی تھی جس پر 13 اگست کو عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے گیس کمپنیوں کو حکومت کو 417 ارب روپے ادا کرنے حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی سیس ٹیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ٹیکس لینے کی اجازت دی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ تمام صنعتی اور کمرشل ادارے جو کاروباری مقاصد کے لیے گیس استعمال کرتے ہیں وہ اس کا بوجھ اپنے صارفین پر منتقل کرتے ہیں لہٰذا 31 جولائی 2020 تک ’سیس‘ کے تمام زیر التوا واجبات جو ابھی تک اکٹھے نہیں کیے گئے وہ کمپنیوں سے حاصل کیے جائیں گے۔

تاہم رعایت کے طور پر یہ وصولی تاخیری ادائیگی کے سرچارج کے بغیر یکم اگست 2020 سے 24 مہینوں کی مساوی اقساط کی صورت میں وصول کرنے کی اجازت دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں