لیبیا میں اجتماعی قبروں سے 17 لاشیں برآمد

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2020
حالیہ مہینوں کے دوران 112 لاشیں نکالی گئیں ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز
حالیہ مہینوں کے دوران 112 لاشیں نکالی گئیں ہیں— فائل فوٹو: رائٹرز

مغربی لیبیا کے علاقے ترحونہ میں نئی اجتماعی قبریں دریافت کی گئی ہیں جس میں کھدائی کے دوران 17 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

ملک میں لاپتا افراد کے معاملات دیکھنے والی اتھارٹی کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں کے دوران 112 لاشیں نکالی گئیں ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حکومتی معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ لطفی توفیق کا کہنا تھا کہ 5 نئی اجتماعی قبریں ملی ہیں جن میں سے 17 افراد کی لاشیں نکالی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا سے دور رہیں یا ہماری گولیوں کا سامنا کریں، لیبین کمانڈر کی ترک صدر کو وارننگ

رپورٹ کے مطابق یہ قبریں ترحونہ میں موجود تھیں، جہاں سے گزشتہ برس خلیفہ حفتر کی افواج نے دارالحکومت طرابلس میں قتل عام کا آغاز کیا تھا۔

یہ علاقہ 80 کلومیٹر دور طرابلس کے جنوب مشرق میں واقع ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں خلیفہ حفتر کو ناکامی ہوئی تھی۔

مزید یہ کہ ترحونہ میں اجتماعی قبروں کی موجودگی خلیفہ حفتر کی فوج کے رواں برس جون میں مغربی لیبیا سے نکل جانے کے بعد سامنے آئی تھی۔

لیبیا کے گورنمنٹ آف نیشنل ایکارڈ (جی این اے) کے وزیر داخلہ فتحی باشاغا کا کہنا تھا کہ یہ اجتماعی قبریں 'ظالمانہ کارروائیوں' کی نشاندہی کرتی ہیں جنہیں سزا دیے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: لیبیا کی حکومت نے ملک بھر میں فوری جنگ بندی کا اعلان کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ کھدائی کے دوران جو لاشیں ملیں ہیں ان میں مبروک خلافہ کی لاش بھی شامل ہیں جو سابق جنرل ڈائریکٹر آف انفارمیشن تھے۔

رواں ہفتے ملنے والی قبریں ترحونہ کی سنگین دریافتوں میں تازہ ترین اضافہ ہے جبکہ مزید تلاش کا کام جاری ہے۔

خیال رہے کہ افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر سے مالا مال لیبیا تقریباً ایک دہائی سے تنازعات کا شکار رہا ہے، جب نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے دوران 2011 میں آمر معمر قذافی کو قتل کیا گیا تھا۔

تاہم لیبیا میں تیل کی پیداوار میں یومیہ 10 لاکھ بیرل آئل کا اضافہ ہوا ہے، نیشنل پیٹرولیم کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ کئی ماہ کی خانہ جنگی، جس کے باعث سے ملک کی توانائی کی پیداوار تقریباً بند ہوچکی تھی، یہ ایک اہم سنگ میل ہے۔

واضح رہے یہ علاقہ عسکری گروہ کے زیر اثر تھا اور دو انتظامی گروپ کے درمیان بٹا ہوا تھا جو ایک عرصے سے ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے، گورنمنٹ نیشنل آف اسمبلی کی حمایت طرابلس اور حریف انتظامیہ کو خلیفہ حفتر کی حمایت حاصل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا: کمانڈر خلیفہ حفتر نے حکومت کی جنگ بندی کو مسترد کردیا

بعدازاں اقوام متحدہ کی جانب سے جنیوا میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی جس پر گزشتہ ماہ متحارب دھڑوں نے 'مکمل جنگ بندی' معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

معاہدے کے بعد انسانی حقوق واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا تھا کہ وہ امن کی طرف اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں انہوں نے ساتھ ہی جاری سنگین جرائم اور دیگر استحصال کے باعث اس معاہدے کے ناکام ہونے کے حوالے سے خبردار بھی کیا۔


یہ خبر 8 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں