وزیر اعظم نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر کابینہ کو نظر انداز کیا، جج سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2020
جسٹس مقبول باقر کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے فیصلہ سازی کے لیے کابینہ کو محض ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا — فائل فوٹو:ڈان
جسٹس مقبول باقر کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے فیصلہ سازی کے لیے کابینہ کو محض ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا — فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو بھجوانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو نظرانداز کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ کابینہ ایگزیکٹو کا اعلیٰ ادارہ ہے جس کی اعلیٰ آئینی حیثیت ہے، وزیر اعظم کی جانب سے اسے فیصلہ سازی کے لیے محض ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

4 نومبر کو جاری ہونے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق فیصلے میں اپنے 68 صفحوں کے اس متنازع نوٹ میں جسٹس مقبول باقر نے مشاہدہ کیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے فیصلہ سازی کے لیے کابینہ کو شامل نہ کرنہ اور اسے ربر اسٹیمپ بنادینا آئین کی اصل روح کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان، فروغ نسیم اور شہزاد اکبر، جسٹس عیسیٰ ریفرنس کے ذمہ دار قرار

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کابینہ کے طرز کی حکومت کو تبدیل کرکے وزیر اعظم کے طرز کی حکومت بنادیا جائے جو آئین سے متصادم تصور ہے۔

جسٹس باقر نے وضاحت دی کہ 'اگر ہم وزیر اعظم کے عہدے کو کابینہ کے مترادف سمجھتے ہیں تو اس کے بعد وزیر اعظم خود ایک فرد کی حیثیت سے وفاقی حکومت بن جاتے ہیں، یہ ناقابل فہم ہے'۔

جسٹس باقر نے متنبہ کی کہ یہ آئینی جمہوریت سے دشمنی ہے جو بادشاہ لوئس چودھویں کے مشہور دعوے کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 'میں ہی ریاست ہوں'۔

سپریم کورٹ کے جج نے فیصلے میں لکھا کہ 'اس طرح وزیر اعظم کے اپنے اقدام پر کیے جانے والے کسی بھی فیصلے میں قانون یا آئین کا اختیار موجود نہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ پر الزام نے عدالتی نظام کی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا تھا، جسٹس فیصل عرب

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جسٹس عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

تاہم عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 22 اکتوبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں