امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج کئی روز کے انتظار کے بعد گزشتہ روز سامنے آگئے۔

مگر یہ صرف صدارتی انتخاب نہیں تھا بلکہ ریاستی گورنرز، کانگریس اور سینیٹ کے انتخابات بھی تھے۔

مگر ان سب کے دوران امریکی ریاست کینٹکی کے ایک قصبے میں ایک کتا سخت مقابلے کے بعد میئر بننے میں کامیاب ہوگیا۔

ریبیٹ ہش نامی قصبے میں 6 ماہ کے فرنچ بل ڈوگ ولبر بیسٹ کو میئر کے طور پر متنخب کیا گیا اور قصبے کی سفیر کے طور پر کام کرنے والی لیڈی اسٹون نے اس کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ نتیجہ اس سال کے سب سے اہم الیکشن میں سامنے آیا۔

نئے میئر کی مالکن 43 سالہ ایمی نولینڈ نے اس کامیابی کو اپنے کتے کی پرجوش حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا۔

انہوں نے بتایا کہ 'اس نے بہت بڑی مہم چلائی، وہ سوشل میڈیا پر ہر جگہ تھا اور متعدد ایونٹس کی میزبانی بھی کی'۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو مگر اس قصبے میں 1988 سے یعنی 32 سال سے کتوں کو ہی میئر کے طور پر منتخب کیا جارہا ہے۔

تو وہاں کتوں کو ہی اس عہدے کے لیے کیوں منتخب کیا جاتا ہے؟ اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے۔

ریبیٹ ہش نامی قصبے میں بنیادی طور پر یہ انتخاب ایک فنڈز جمع کرنے کا ذریعہ ہے، کیونکہ اس ساڑھے 3 ایکڑ کے قصبے کا انتظام ریبیٹ ہش ہسٹوریکل سوسائٹی سنبھالتی ہے۔

اس قصبے کے لیے ووٹ صرف وہاں کے شہریوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر سے کوئی بھی میئر کے ووٹ ڈال سکتا ہے اور ہر ووٹ کے لیے ایک ڈالر دینا ہوگا، جو قصبے کے انتظام کے لیے مختص فنڈ میں جائے گا۔

ایمی نولینڈ کافی عرصے سے سے اپنے کتے کو اس انتخابی دوڑ کا حصہ بنانا چاہتی تھیں 'میں اس قصبے سے کچھ میل دور مقیم ہوں، یہ ایک خاص قصبہ ہے، جہاں میں بچپن سے جارہی ہوں'۔

میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ہر اُمیدوار کے مالک کی رہائش قصبے کے ارگرد ہی ہونی چاہیے کہ ایک گھنٹے میں پیدل چل کر وہاں پہنچا جاسکے۔

ولبر بیسٹ کی کامیابی سے اسے اور ایمی نولینڈ کو دنیا بھر سے توجہ ملی ہے۔

ایمی نولینڈ کا کہنا تھا کہ 'مجھے متعدد افراد کے پیغامات ملے ہیں جس میں انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا، کیونکہ اس سے انہیں موجودہ حالات میں کچھ مثبت جاننے کا موقع ملا'۔

ولبر بیسٹ نے 22 ہزار 985 میں سے 13 ہزار 143 ووٹ حاصل کیے، یعنی اس الیکشن سے قصبے کو 22 ہزار 985 ڈالرز جمع کرنے کا موقع ملا۔

تبصرے (0) بند ہیں