اگر بدقسمتی سے آپ کو زہریلا سانپ ڈس لے تو زندگی بچانے کی بہترین امید تریاق ہے، جس کو 19 ویں صدی سے ایک ہی طریقے سے تیار کیا جارہا ہے۔

اس طریقہ کار میں سانپ کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کے زہر کو کسی برتن میں جمع کیا جاتا ہے اور پھر دیگر جانوروں میں کچھ مقدار میں دیا جاتا ہے تاکہ ایک مدافعتی نظام متحرک ہوسکے۔

پھر اس جانور کا خون جمع کرکے صاف کرکے اینٹی باڈیز کو حاصل کیا جاتا ہے جو زہر کے خلاف کام کرتی ہیں۔

تریاق کو تیار کرنے کافی مشکل عمل ہے اور خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے جسے تیار کرنے والوں میں سنگین مضر اثرات کا خطرہ ہوتا ہے۔

اب آخرکار سائنسدانوں نے ایک نیا طریقہ کار دریافت کیا ہے، جس سے توقع ہے کہ 21 ویں صدی میں تریاق کی تیاری آسان اور ہر سال لاکھوں نہیں تو ہزاروں جانیں میں ضرور مدد مل سکے گی۔

نیدرلینڈز کے ماہرین نے مختلف اقسام کے سانپوں کے زہر تیار کرنے والے غدود لیبارٹری میں اسٹیم سیلز کی مدد سے تیار کیے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ زہر اصل سانپ کے زہر جیسا ہی ہوتا ہے۔

دوسری جانب بھارت میں کوبرا کے جینول کا سیکونس تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے جو ہر سال صرف بھارت میں ہی 50 ہزار افراد کو ڈستا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس میدان میں تیزی سے پیشرفت ہورہی ہے، یہ بہت بڑی پیشرفت ہے کیونکہ 2020 میں بھی اس شعبے کو اب تک نظرانداز کیا جارہا تھا۔

نیدرلینڈز کے ہیوبریچٹ انسٹیٹوٹ کے محقق ہانس کلیورز نے بتایا کہ انہوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ ان کی لیبارٹری کو سانپ کا زہر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ایک دہائی قبل انہوں نے اسٹیم سیلز سے ننھے انسانی اعضا بنانے کی تیکنیک ایجاد کی تھی، جس سے دنیا بھر میں ماہرین کو جسم سے باہر ادویات کے مخصوص اثرات کو جانچنے کا موقع ملتا ہے۔

اس طریقہ کار سے کینسر کے علاج کے شعبے میں انقلابی پیشرفت ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی لیبارٹری میں کام کرنے والے پی ایچ ڈی کے 3 طالبعلم چوہوں اور انسانی گردے، جگر اور معدے تیار کرکر بیزار ہوگئے تھے، تو انہوں نے سوا کہ ایسا کونسا جانور ہے جو دنیا بھر میں خطرناک ہے اور انہوں نے سانپوں کے زہر بنانے والے غدود کا کہا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان طالبعلموں کا خیال تھا کہ سانپوں میں بھی اسٹیم سیلز ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسے چوہوں اور انسانوں میں، مگر اب تک کسی نے بھی اس پر کام نہیں کیا تھا۔

اس کے بعد محققین نے سانپ کے انڈے حاصل کیے اور ان کے ٹشوز کا ننھا ٹکڑا لیا، جس میں اسٹیم سیلز موجود تھے اور اس کو کم درجہ حرارت میں اسی عمل سے گزارا گیا، جس سے انسانی اعضا تیار کیے جاتے تھے، تاکہ زہریلے غدود تیار ہوسکیں۔

اس طرح وہ حقیقی سانپ جیسا زہر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق میں سائنسدانوں نے لیبارٹری میں تیار ہونے والے زہر کا موازنہ حقیقی زہر سے جینیاتی سطح اور افعال کی بنیاد پر لیا، اور دریافت کیا کہ مسلز کے خلیات اس مصنوعی زہر سے متاثر ہوتے ہیں۔

اس وقت جو تریاق گھوڑوں کی مدد سے تیار ہوتے ہیں، ان میں مضر اثرات کی شرح زیادہ ہے، یعنی خارش اور کھجلی یا دیگر سنگین اثرات۔

یہ تریاق کافی مہنگا بھی ہوتا ہے اور عام طور پر سانپوں کے زیاادہ تر شکار افراد کا تعلق ایشیا اور افریقہ کے دیہی علاقوں سے ہوتا ہے، جہاں تریاق کی دستیابی ایک الگ مسئلہ ہے۔

مگر اس نئی تحقیق سے سائنسدانوں کو سیکڑوں اقسام کے سانپوں کے زہر تیار کرنے کا موقع ملے گا، جس کے بعد نئے ریاق کی تیاری میں مدد مل سکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں