پرامن معاشرے کیلئے خواتین پر تشدد کا خاتمہ 'ضروری' ہے، مذہبی اسکالرز

08 دسمبر 2020
اسکالرز نے اس ڈکلیئریشن پر دستخط بھی کیے جن میں صنف کی بنیاد پر تشدد کی مذمت کی گئی تھی  — ڈان آرکائیوز
اسکالرز نے اس ڈکلیئریشن پر دستخط بھی کیے جن میں صنف کی بنیاد پر تشدد کی مذمت کی گئی تھی — ڈان آرکائیوز

مختلف مکاتب فکر کے مذہبی اسکالرز نے زور دیا ہے کہ پرامن معاشرے کے قیام اور بین الامذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے 'ضروری' ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔

یہ بات ای وی اے ڈبلیو الائنس خیبر پختونخوا اور اقوام متحدہ خواتین نے اپنے بیان میں کہی۔

یہ مذہبی اسکالرز، صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ سرگریوں کے حوالے سے اقوام متحدہ خواتین کے خیبر پختونخوا دفتر اور ای وی اے ڈبلیو الائنس کے پی کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد کیے گئے مذاکرات میں شرکت کر رہے تھے۔

اسکالرز نے اس ڈکلیئریشن پر دستخط بھی کیے جن میں صنف کی بنیاد پر تشدد کی مذمت کی گئی تھی اور یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ اپنے حلقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی آگاہی پھیلائیں گے۔

انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اگرچہ کوئی بھی صنف کی بنیاد پر تشدد کا شکار ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں خواتین، جو معاشرے کا کمزور طبقہ ہے اور جنہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اس طرح کے تشدد کا سب سے زیادہ شکار ہوتی ہیں جن کے بعد خواجہ سرا برادری کے افراد کو سب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کو روکنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خارجہ

مذہبی اسکالرز نے زور دیا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔

بیان میں اسکالرز کے حوالے سے کہا گیا کہ 'سرکاری طور پر چلنے والے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کمزور گروپوں کو مطلوبہ مدد کے حصول کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے'۔

مزید کہا گیا کہ 'صنف کی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے لیے ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے، جبکہ مذہبی رہنماؤں کے پاس ان کے حلقوں کے لوگوں کی زندگیوں اور برتاؤ پر اثر انداز ہونے کی طاقت ہے'۔

صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف کوششوں میں مذہبی رہنماؤں کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ای وی اے ڈبلیو/جی الائنس کے کوچیئر قمر نسیم کا کہنا تھا کہ اسکالرز، لوگوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں اور وہ مقامی برادریوں کے برتاؤ میں تبدیلی لانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے مذہبی اسکالرز کو بطور عملی اسٹریٹیجی شامل کیا جائے تاکہ صنف کی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے آگاہی بڑھائی جاسکے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: خواتین پر تشدد، کم عمر میں شادیوں و جنسی جرائم میں اضافے کا خدشہ

اقوام متحدہ خاتون کے پی کی صوبائی سربراہ زینب قیصر خان نے کہا کہ صنف کی بنیاد پر تشدد صرف گھریلو تشدد، ریپ اور غیرت کے نام پر جرائم سمیت جنسی تشدد تک محدود نہیں ہے، یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت اور تمام طبقات میں ہوسکتا ہے چاہے تعلیم کی جو بھی سطح اور آمدنی کا اسٹیٹَس ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ لڑکوں، مردوں، زائد عمر کے افراد اور خواجہ سراؤں کے خلاف ہوسکتا ہے لیکن اکثر اس کا نشانہ خواتین اور لڑکیاں بنتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں