انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی،عملدرآمد کے خلا کو دور کرنا ناگزیر ہے، شیریں مزاری

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
16 روزہ سرگرمیوں میں دنیا  بھر میں  خواتین پر تشدد کے مسلسل رجحان اور اس کی روک تھام کے لیے بھرپور کارروائیوں کی ضرورت  کو اجاگر کیا جاتا ہے— فوٹو: بشکریہ یو این ویمن
16 روزہ سرگرمیوں میں دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے مسلسل رجحان اور اس کی روک تھام کے لیے بھرپور کارروائیوں کی ضرورت کو اجاگر کیا جاتا ہے— فوٹو: بشکریہ یو این ویمن

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کی پاسداری کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کے درمیان موجود خلا کو دور کرنا ناگزیر ہے۔

شیریں مزاری نے مذکورہ بیان انسانی حقوق کے عالمی دن اور پاکستان میں صنفی تشدد کے خلاف 16 روزہ سرگرمیوں کے اختتام کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں دیا۔

اس تقریب کا انعقاد وزارت انسانی حقوق اور اقوام متحدہ ویمن پاکستان کے اشتراک سے شہید بے نظیر بھٹو کرائسز سینٹر اسلام آباد میں کیا گیا۔

اس موقع پر تشدد کا مقابلہ کرنے والی کئی خواتین نے اپنی اپنی روداد سنائی اور تجاویز بھی پیش کیں کہ مختلف ادارے اور ذمہ داران اس سلسلے میں اپنی سرگرمیوں کو کس طریقے سے زیادہ مؤثر بنا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: صنفی تشدد کے خاتمے سے متعلق یورپی یونین کی 16 روزہ خصوصی مہم

براہ راست آن لائن منعقد ہونے والی اس تقریب میں قانون، پولیس، سول سوسائٹی، حکومتی اداروں، اقوام متحدہ کے اداروں اور سفارتی برادری سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے سلسلے میں پاکستان نے جو نمایاں بہتری دکھائی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اداروں اور معاشرے کی سطح پر ہمارے لیے اس سلسلے میں موجود رکاوٹوں اور بندشوں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان بندشوں اور رکاوٹوں پر قابو پاکر ہم یہ یقینی بنارہے ہیں کہ ہر شہری کو ایسی زندگی میسر ہو جس میں اس کے انسانی وقار اور حقوق کا احترام کیا جائے۔

شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی شیریں مزاری نے کہا کہ انسانی حقوق سے متعلق قوانین میں موجود خلا کو دور کرنے، ان پر عملدرآمد کو مضبوط بنانے اور ان کے بارے میں آگاہی میں اضافے کی ضرورت ہے، جبکہ پاکستان نے آئین کی روشنی میں انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کا تہیہ کر رکھا ہے۔

انہوں نے یو این ویمن پاکستان کے تعاون سے شہید بے نظیر بھٹو کرائسز سینٹر میں قائم کی گئی کمپیوٹر لیب کا افتتاح بھی کیا۔

اس کمپیوٹر لیب کی بدولت کرائسز سینٹر کی رہائشی خواتین کمپیوٹر کی صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرسکیں گی جس سے انہیں غربت سے نجات دلانے اور آزاد شہری بننے میں مدد ملے گی۔

تقریب میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والی ایک خاتون کی کہانی پر مبنی ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کو روکنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خارجہ

ویڈیو میں بتایا گیا کہ کس طریقے سے تیزاب گردی کا شکار ہونے والی خاتون نے مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے جدوجہد کی۔

تقریب میں دکھائی جانے والی ویڈیو کا مقصد متاثرہ افراد کے حالات پر روشنی ڈالنا جبکہ ان کی ہمت، حوصلے اور پختہ عزم کو بھی اجاگر کرنا تھا۔

خیال رہے کہ صنفی تشدد کے خلاف 16 روزہ سرگرمیاں، دراصل ایک عالمی مہم ہے جس کا آغاز ہر سال 25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے ہوتا ہے جو 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن تک جاری رہتی ہیں۔

ان 16 روزہ سرگرمیوں میں دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے مسلسل رجحان اور اس کی روک تھام کے لیے بھرپور کارروائیوں کی ضرورت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے افراد اور اداروں کی جانب سے یہ مہم ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے جس کے ذریعے لوگوں سے خواتین اور لڑکیوں پر ہر طرح کے تشدد کے خاتمے اور اس کی روک تھام میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔

رواں برس کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث صنفی تشدد کے خلاف ان 16 روزہ سرگرمیوں کا انعقاد 'فنڈ دیں، جوابی اقدام کریں، روک تھام کریں، جمع کریں' کے پیغام کے تحت کیا گیا۔

اس سال اس مرکزی پیغام کا مقصد فنڈز کی کمی کو دور کرنا، کورونا وائرس کے بحران کے دوران تشدد سے متاثرہ افراد کے لیے خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا، روک تھام اور ایسے اعداد و شمار کو جمع کرنے پر زور دینا ہے جن کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کی جان بچانے کی خواتین کی کوششوں میں بہتری لائی جاسکے۔

علاوہ ازیں پاکستان میں کینیڈا کی ہائی کمشنر وینڈی گلمور نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔

مزید پڑھیں: خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کی مہم ’رکو اور روکو‘

انہوں نے کہا کہ آج کی تقریب کی بدولت ہمیں پاکستان میں خواتین پر تشدد سے متاثر ہونے والوں اور اس کے خاتمے کے لیے سرگرم مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو یکجا کرنے کا موقع ملا۔

وینڈی گلمور نے کہا کہ اس طرح انہوں نے نہ صرف خیالات کا تبادلہ کیا بلکہ اس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملے گی کہ متعلقہ نظام اور خدمات کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں متاثرہ افراد سے معلومات لی جائیں اور ان کی روشنی میں ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

شرکا سے خطاب میں پاکستان میں آسٹریلیا کی ڈپٹی ہائی کمشنر جوآن فریڈرکسن نے کہا کہ صنفی تشدد پائیدار امن میں ایک رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنفی تشدد معیشت پر ایک بوجھ ہے اور انسانی حقوق کے منافی ہے۔

جوآن فریڈرکسن نے کہا کہ یہ ایک عالمی چیلنج ہے جو کسی بھی حال میں سنگین ہے اور دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا کے دوران موجودہ حالات میں جب مدد تک رسائی محدود تو ہو یہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج صنفی تشدد کے خاتمے کی 16 روزہ سرگرمیاں اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہیں لیکن آسٹریلیا کی جانب سے پاکستان میں اس سے متعلق ایڈووکیسی سرگرمیوں اور معاونت کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ کسی بھی صورت میں تشدد سے پاک زندگی گزارنا ایک بنیادی انسانی حق ہے۔

یو این ویمن پاکستان کی نمائندہ شرمیال رسول نے کہا کہ خواتین کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن میں تشدد سب سے سنگین ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنفی تشدد کا مسئلہ محض پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور یہ وبائی نوعیت کا حامل ہے۔

شرمیال رسول نے کہا کہ ہر تیسری خاتون کو اپنی زندگی میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ صنفی تشدد کے متاثرین کو انصاف تک فوری رسائی میں مدد دینے اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری اور معیاری خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان اور وفاق اور صوبوں کے درمیان معاونت کا مضبوط نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں