ہولی وڈ میں اب بھی جنسیت و جنسی ہراسانی موجود ہے، رپورٹ

16 دسمبر 2020
درمیان میں موجود انیتا ہل نے کمیشن کی سربراہی کی—فائل فوٹو: رائٹرز
درمیان میں موجود انیتا ہل نے کمیشن کی سربراہی کی—فائل فوٹو: رائٹرز

دنیا کی معتبر ترین و بڑی فلم انڈسٹری کا درجہ رکھنے والی ہولی وڈ انڈسٹری میں جنسیت، صنفی و نسلی تفریق سمیت جنسی ہراسانی کے واقعات کی تفتیش کرنے والے کمیشن نے کہا ہے کہ اگرچہ ہولی وڈ میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بہتری آئی ہے، تاہم اب بھی وہاں جنسیت و جنسی ہراسانی موجود ہے۔

ہولی وڈ میں صنفی و نسلی تفریق، لوگوں سے امتیازی سلوک اختیار کرنا اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سمیت ان سے کام کے عوض جنسی تعلقات کے مطالبے کرنے جیسے معاملات پر تحقیق کرنے والے ہولی وڈ کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کردی۔

ہولی وڈ کمیشن کا قیام 2017 میں اس وقت لایا گیا تھا جب کہ پہلی بار 3 درجن خواتین نے اکتوبر میں ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر جنسی ہراسانی، جنسی استحصال، ریپ و جنسی شے کے طور پر استعمال کرنے جیسے الزامات لگائے گئے تھے۔

ہولی وڈ کمیشن کو امریکی حکومت اور فلمی حلقوں نے بنایا تھا، جس کی سربراہی قانون دان، تعلیم دان و انسانی حقوق کی رہنما 64 سالہ انیتا ہل کو سونپی گئی تھی۔

کمیشن نے تین سال تک متعدد ہولی وڈ پروڈکشن کمپنیوں کے ملازمین، اداکاروں، اداکاراؤں سمیت ہولی وڈ سے جڑے دیگر افراد سے براہ راست تفتیش کرنے سمیت ان سے آن لائن سروے بھی کیے۔

ہولی وڈ کمیشن نے اپنی فائنل رپورٹ 15 دسمبر کو جاری کی، جسے 4 ابواب میں شائع کیا گیا، تاہم ساتھ ہی رپورٹ میں تجاویز اور سروے کے حوالے سے الگ معلومات شائع کی گئی۔

رپورٹ میں چار اہم مسائل جوابدہی، تعصب و تنوع، استحصال، جنسی ہراسانی و نازیبا طرز عمل کی وسیع پیمانے پر تفتیش کی گئی۔

اب بھی ہولی وڈ میں خواتین کو جنسی شے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، رپورٹ—فائل فوٹو: جینیفر لارنس: رائٹرز
اب بھی ہولی وڈ میں خواتین کو جنسی شے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، رپورٹ—فائل فوٹو: جینیفر لارنس: رائٹرز

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ہولی وڈ میں می ٹو مہم کے بعد کئی بہتر تبدیلیاں سامنے آئیں اور درجنوں خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے طاقتور مرد حضرات کو عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑا، تاہم اس باوجود اب بھی انڈسٹری میں جنسیت و جنسی ہراسانی سمیت ہر طرح کے مسئلے موجود ہیں۔

اسی حوالے سے خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کمیشن کی جانب سے کیے جانے والے آن لائن سروے میں بھی ہولی وڈ میں کام کرنے والی خواتین نے بتایا کہ انہیں می ٹو مہم شروع ہونے کے بعد بھی جنسی استحصال و ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

درجنوں خواتین نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے پر بتایا کہ ان کی جنسیت کو پروڈکشن کمپنیاں کیش کروانے کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ مرد حضرات کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔

کئی خواتین نے تاحال ہولی وڈ میں جنسی ہراسانی کی موجودگی کے بارے میں بتایا اور کہا کہ می ٹو مہم سے تھوڑا سا فرق پڑا ہے، تاہم تاحال انہیں جنسی استحصال اور نازیبا رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ تاحال ہولی وڈ میں نسلی تفریق بھی موجود ہے اور سیاہ فام نسل کے افراد کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ ہولی وڈ پروڈکشن ہاؤسز کو ملازمین کے حقوق کے لیے مزید کام کرنا ہوں گے اور انہیں جنسی ہراسانی، تعصب اور استحصال جیسی شکایات کے بعد مکمل اور بہتر تفتیش کرنی ہوگی۔

رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ می ٹو مہم شروع ہونے کے باوجود تاحال ہولی وڈ کے متعدد پروڈکشن ہاؤسز میں جنسی ہراسانی و استحصال کی شکایات کی مکمل طرح تفتیش نہیں کی جاتی۔

رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہولی وڈ میں گزشتہ تین سال سے آنے والی تبدیلیوں سے کچھ بہتری آئی، تاہم اب بھی کئی مسائل حل طلب ہیں اور تاحال انڈسٹری میں جنسیت و جنسی ہراسانی موجود ہے۔

خیال رہے کہ کمیشن کی سربراہی جس خاتون انیتا ہل نے کی، انہوں نے بھی 1991 میں اس وقت کے امریکی سپریم کورٹ کے جج پر جنسی استحصال و ریپ کے الزامات لگائے تھے۔

انیتا ہل نے 1991 میں جج کلیرنس تھومس پر جنسی استحصال کے الزامات لگائے تھے، تاہم جج نےان کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

انیتا ہل کو جج پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگانے کی وجہ سے 30 سال قبل کافی شہرت بھی ملی تھی۔

انیتا ہل نے 1991 میں امریکی سپریم کورٹ کے جج پر جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے تھے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
انیتا ہل نے 1991 میں امریکی سپریم کورٹ کے جج پر جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے تھے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

تبصرے (0) بند ہیں