فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اب جب کہ پاکستان کے نئے صدر کا انتخاب ہو چکا ہے ہماری تمام تر کوششیں یہ ہونی چاہئے کہ صدارت کے عہدے کو وہ وقار فراہم کیا جائے جسکی تمام ذمہ دار جمہوریتوں میں ضمانت دی جاتی ہے-

اس سے پہلے کہ ہم ان کوششوں پرغورکریں یہ بات قابل افسوس ہے کہ  30 جولائی  کو  ہونے والا انتخابخاصا متنازعہ ہو گیا-

امید ہے کہ یہ ناپسندیدہ واقعہ جلد ہی بھلا دیا جائیگا-

دریں اثناء حکومت مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس منصوبہ کو ناکام بنا دیا جو وزیر اعظم نوازشریف کے 6 اگست کو سعودی عرب جانے کے پروگرام میں رخنہ اندازی کرنے کا تھا- اس سال مقدس مقامات کی زیارت نوازشریف کیلئے خصوصی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ شکرانہ کی نماز جلد از جلد ادا کر دینی چاہئے- مزید یہ کہ آئندہ سالوں میں سعودی عرب میں اعتکاف میں بیٹھنا ایک مصروف وزیر اعظم کیلئے شائد آسان نہ ہو کیونکہ اس کے لئے تمام دنیاوی معاملات سے دور رہنا ضروری ہے- دوسرے یہ کہ بولنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے- ایک سیاست دان کیلئے یہ سب کچھ خاصا مشکل ہے-

گزشتہ پچاس برس سے زیادہ کے عرصے نے صدارتی وقارکو زک پہنچائی ہے- پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندرمرزا نے یوں شہرت کمائی کہ وہ ملک کے وزرائے اعظم کو یوں تبدیل کرتے تھے جیسے کہ اپنا کوٹ- دوسرے یہ کہ انہوں نے مارشل لا لگا کر اور اس دستور کو معطل کر کے مزید بدنامی کمائی جس پر انہوں نے خود دستخط کئے تھے-

اس کے بعد ہم نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے صدارتی دوردیکھے-

بہ حیثیت صدر یہ لوگ اپنے جنرل کے عہدوں کے تابعدار تھے- ایوب، یحییٰ اور ضیاء نے اس اعتبار سے جو کچھ کیا وہ تو اب تاریخ کا حصّہ بن چکا ہے حتیٰ کہ پرویز مشرف نے تو 3 نومبر2007 کو خود اپنی حکومت کے خلاف بحیثیت صدر نہیں بلکہ بہ حیثیت جنرل بغاوت کی-

پریذیڈنٹ- جنرل کی غیر جمہوری کارروائیوں نے صدارتی عہدے کے وقار کو خاصی زک پہنچائی-

گزشتہ چند سال تو خاص طور پر صدارتی عہدے کیلئے خراب رہے ہیں- میڈیا اور دیگر ایکٹروں کی جانب سے صدر آصف علی زرداری کی مسلسل تضحیک کے نتیجے میں- خواہ یہ جائز تھی یا ناجائز- صدر کے عہدے کا مذاق اڑایا گیا اور اسے لعن طعن اور افواہ سازی کا نشانہ بنایا گیا-

اب یہ توقع کی جانی چاہئے کہ تمام جماعتیں، جنہیں حکومت پرتنقید کرنےکا حق حاصل ہے، وہ اس طرح اپنا یہ حق استعمال کرینگی کہ صدر کے عہدے کی تذلیل نہ ہو- سپریم کورٹ کی اس رولنگ سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جس نے ایک بریگیڈئر کو گرفتار کرنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ اس سے ادارے کے وقار کو نقصان پہنچتا-

صدر کے عہدے کو وفاق کی پروقار علامت بنانے کیلئے سب سے پہلے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر کو علم ہو کہ اس کے آئینی حدود کیا ہیں- امید کی جانی چاہئے کہ منتخب صدر ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد کی طرح پرعزم نہیں ہونگے جنہوں نے شائد یہ کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو ملک کا چہرہ بدل دینگے- انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ صدر اپنے طور پر تو ایوان صدر کی عمارت کا چہرہ بھی نہیں بدل سکتا-

جناب ممنوں حسین نے اپنی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا ہے- لیکن ان کا نیا عہدہ ان سے اور بہت کچھ کا متقاضی ہے- انہیں اپنی پارٹی سے اپنی وابستگی کو مکمل طور پر بھلا دینا ہو گا جو کہنا تو آسان ہے لیکن کرنا مشکل- اسی لئے جمہوری حکومتیں اکثر سربراہ ریاست کے عہدے کیلئے پارٹی کے وفاداروں کا نہیں بلکہ ممتاز شہریوں کا انتخاب کرتی ہیں-

ہندوستان نے اس عہدے کیلئے ماہرین تعلیم/سائنسدان کا انتخاب کر کے اچھی مثال قائم کی ہے- اس نے ڈاکٹررادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر ابوالکلام کو اس عہدے کیلئے منتخب کیا تھا اگرچہ اس نے ایک ایسے صدر کو بھی منتخب کیا تھا جسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ وزیراعظم کے جوتوں کی پالش کر چکا ہے-

افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے بادشاہ گروں نے کبھی، اپنے خاص الخاص افراد کے علاوہ چند وہ لوگ جن کے ان پر احسانات تھے، کسی کو یہ عزت نہیں دی- ان دنوں جب کہ صدور کو وسیع ترین اختیارات حاصل تھے یہ سوچا جا سکتا ہے کہ حکمران پارٹیوں کے پاس وجہ موجود تھی کہ وہ اپنے قابل بھروسہ آدمیوں کو (عورتیں ابھی تک اس شمار میں نہیں ہیں) ایوان صدر بھیجیں-

لیکن اب جب کہ صدر کو ریاست کے رسمی سربراہ کی حیثیت دی جا چکی ہے یہ خطرہ مول لیا جا سکتا ہے کہ کسی ایسے ممتاز شہری کو اس عہدہ کیلئے منتخب کیا جائے جسے اپنے کارناموں اور راست گوئی کے سبب عوام کا اعتماد حاصل ہو- اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ پارلیمنٹ میں صدر کی تقریر بامعنی ہو- ان تقاریر میں بنیادی طور پر یہی بتایا جاتا ہے کہ حکومت اپنے دور حکمرانی میں یا سال بہ سال کیا کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے- صدر محض حکومت کے پروگرام کو مختصراً بیان کرتا ہے-

پاکستان میں جہاں سیاست متضاد سمتوں میں تقسیم ہے صدارتی خطبات حکمران پارٹی اور حزب مخالف کے درمیان رسہ کشی کا موقع فراہم کرتے ہیں- اس کا سارا نقصان عوام کو پہنچتا ہے کیونکہ حکومت کے ویژن/پروگرام پر منطقی بحث کا موقع کہیں کھو جاتا ہے- اس سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت واضح ہے-

ریاست کی علامت ہونے کی وجہ سے مصیبت زدہ شہری ایوان صدر کی جانب دیکھتے ہیں کیونکہ حتمی اختیارات اسی کو حاصل ہیں- ہمارے ملک میں عوام کے سامنے ایوان صدر کے ذریعہ مراعات حاصل کرنے کی ایک طویل روایت موجود ہے- وہ اپنی شکایات ایوان صدر کے عوامی سکریٹریٹ میں جمع کرتے ہیں جہاں عموماً ایک لاتعلق سا افسر شکایتی درخواستوں پر "ایکس وائی زی کی توجہ کیلئے" لکھ دیتا ہے اور ایکس وائی زی کافی تاخیر کے بعد جواب دیتا ہے کہ شکایت پہنچ چکی ہے اور یہیں پر معاملہ ختم ہو جاتا ہے-

یہ طریقہء کار انتہائی فرسودہ ہے- ایوان صدر کو چاہئے کہ وہ عوامی شکایات کی جانب بروقت اور مناسب توجہ دے- یہ دیکھنا صدرکی ذمہ داری ہے کہ ریاست کس حد تک عوام کو فیض پہنچا سکتی ہے یا ان کی رحم کی درخواست منظور کر سکتی ہے- اسی مقصد کیلئے پاکستان کے آئین کی شق 45 میں اس قسم کی دفعات رکھی گئی ہیں جو کہ اکثر ملکوں کے بنیادی قوانین میں شامل ہیں جس کے تحت صدر کو اختیار ہے کہ وہ بعض سزائیں معاف کر دے اور بعض میں کمی کر دے-

قصاص اور دیت کے قوانین کی منظوری کے بعد اس شق کی کو غیرضروری طور پر متنازعہ بنا دیا گیا ہے- شق 45 کے تحت صدر کے اختیارات کو ختم کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے- ویسے بھی قصاص کا قانون اس صورت میں صدر کے اختیارات پر اثر انداز نہیں ہوتا جبکہ قتل نہ ہوا ہو- اگر رحم کے معاملات پر صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے تو ریاست کی جانب عوام کی محبت میں اضافہ ہو گا-

ضرورت اس بات کی ہے کہ شق 45 کے تحت صدر کے اختیارات پر موجود پابندیوں کو کم کیا جائے-

صدر کے عہدے کا غیر جانب دارانہ مرتبہ اس وقت نمایاں ہو گا جب یہ بات واضح طور پر سامنے آئیگی کہ ایوان صدر ریاست کے رفاہی امور کو بلا امتیاز انجام دے رہا ہے جسے ہم روز بروز بالائے طاق رکھتے جا رہے ہیں-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Bahadur Ali Memon Aug 14, 2013 09:11am
beshak sahi kaha , ab dekhty hen k aany waly sader ka tareeka kia , kia bhi kaha jae per hamary mulk ki tareekh men jo achhy kam sader zardari sahb ne keye hen wo shayad hi koi kar saky, us ne jamohriat ko mazboot kia he. Bahadur Ali Memon , Badin Sindh