پاکستان میں دہشت گردی سنگین مسئلہ نہیں رہا، سیکیورٹی رپورٹ

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2021
کراچی میں اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملے کو پولیس نے ناکام بنا دیا تھا — فائل/فوٹو:رائٹرز
کراچی میں اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملے کو پولیس نے ناکام بنا دیا تھا — فائل/فوٹو:رائٹرز

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پیپس) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سنگین مسئلہ نہیں رہا تاہم مذہبی انتہاپسندی اب بھی ایک خطرہ ہے۔

پیپس کی پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2020 میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور ان سے منسلک گروپ 2020 میں اہم کارروائیوں میں مرکزی عنصر رہا اور مجموعی طور پر دہشت گردی کے 67 حملے کیے یا 2020 میں 46 فیصد حملے فاٹا میں ہوئے'۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے اپنے متعدد منحرف گروپوں کو کامیابی سے اکٹھا کر لیا جبکہ داعش نے 2020 میں کوئٹہ اور پشاور میں دو بڑے حملے کیے۔

پیپس کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'بلوچستان میں انتہا پسند گروپس بھی 2020 میں متحرک نظر آئے جہاں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) دو بڑے گروپ تھے، جنہوں نے صوبے میں 34 میں سے 24 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

رپورٹ کے مطابق 'سندھ میں بھی منافرت پسند گروپس نے سال بھر میں 10 حملے کیے جس میں سندھ ریولوشنری آرمی نے 8 حملے کیے'۔

گزشتہ برس ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ 'ایک برس پہلے کے مقابلے میں 2020 میں دہشت گردی کے واقعات میں 36 فیصد کمی آئی تاہم مختلف گروپس کی جانب سے مجموعی طور پر پاکستان بھر میں 146 حملے کیے گئے جس میں خود کش حملے بھی شامل ہیں'۔

پیپس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 'دہشت گردی کے واقعات میں 220 افراد لقمہ اجل بن گئے جو 2019 کے مقابلے میں 38 فیصد کم ہوئے اور اسی طرح 547 افراد زخمی بھی ہوئے'۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: دہشت گردوں کے حملے میں 14 سیکیورٹی اہلکار شہید

حملوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ '146 حملوں میں 95 مذہبی، 44 لسانی اور 7 حملے فرقہ وارانہ بنیادوں پر کیے گئے'۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'دہشت گردی کے حملوں میں کمی کے باوجود 2020 میں مذہبی انتہاپسندی کو خطرہ بدستور موجود رہا اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور ان کی عبادت گاہوں پر ذاتی اور ہجوم کی شکل میں حملے گئے اور نفرت پر مبنی تقاریر اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں'۔

حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ 'نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان حملوں کے انسداد اور چیلنجز سے نمٹنے کے ثبوت ناکافی ہیں'۔

خیبر پختونخوا میں 'سب سے زیادہ دہشت گردی کے 79 حملے ہوئے، جن میں صرف شمالی وزیرستان میں 31 واقعات پیش آئے اور 100افراد جاں بحق اور 206 زخمی ہوگئے'۔

اسی طرح 'بلوچستان میں 42 حملوں میں 95 افراد جاں بحق اور 2016 زخمی ہوئے، سندھ میں 18 دہشت گردی کے واقعات پیش آئے جن میں 15 کراچی اور 3 اندرون سندھ میں ہوئے اور 20 افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 66 زخمی ہوئے'۔

پنجاب میں '2020 میں دہشت گردی کے 7 واقعات ہوئے جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 59 افراد زخمی ہوئے'۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2020: کراچی میں کار لفٹنگ، موٹرسائیکل، موبائل فون چھینے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 'سیکیورٹی فورسز نے 2020 میں پاکستان کے 22 اضلاع اور ریجنز میں انتہاپسندوں کے خلاف مجموعی طور پر 47 کارروائیاں کیں اور ان میں 129 انتہاپسند مارے گئے جبکہ پاک فوج کے 17 جوان شہید ہوئے'۔

پاکستان بھر میں 'قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہاپسندوں کے ساتھ 15 مسلح جھڑپیں اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 29 انتہاپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا مگر 7 سیکیورٹی اہلکار اور 2 شہری بھی جان سے گئے'۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سرحد پر 2020 میں 125 حملے ہوئے، افغانستان کی جانب سے 11 اور بھارت نے 114 حملے کیے اور اس کے نتیجے میں 62 افراد اس دنیا سے چلے گئے اور 222 زخمی ہوئے تاہم پہلے برس کے مقابلے میں 34 فیصد کمی آئی۔

پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2020 کے مطابق 'ملک میں دہشت گردی، سرحد پر حملوں سمیت دیگر تمام واقعات میں مجموعی طور پر 503 افراد جاں بحق اور 851 زخمی ہوگئے'۔

تبصرے (0) بند ہیں