پی ڈی ایم کا مقصد اداروں پر دباؤ ڈال کر کرپشن کیسز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2021
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی—فائل فوٹو: بشکریہ وزارت اطلاعات
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی—فائل فوٹو: بشکریہ وزارت اطلاعات

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ایک مختلف خیال رکھنے والے لوگوں کا منفی اتحاد ہے، جس کا مقصد موجودہ حکومت کو زق پہنچانا ہے اور اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے کرپشن کیسز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

ملکی سیاسی صورتحال، بین الاقوامی اور اہم علاقائی امور سے متعلق اپنے ایک جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت اس خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور وہ افغان امن عمل میں ایک اسپائلر کا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیج کر دم لے گی، مریم نواز

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر سفارتی محاذ پر بھارت کا مقابلہ کر رہا ہے، بھارت واویلا کر رہا ہے کہ اسے سلامتی کونسل کے غیرمستقل رکن ہونے کے ناطے بڑی کامیابی ملی ہے اور اسے 3 کمیٹیوں کی صدارت کا موقع ملے گا۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن رہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کو بھی اہم ذمہ داریاں ملیں، سلامتی کونسل میں تقریباً 30 کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں ہوتی ہیں جبکہ غیر مستقل رکن ہونے کے ناطے بھارت کو ذمہ داریاں ملنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی خواہش کیا تھی، اس کی خواہش تھی کہ اسے 1267 کی قدغن لگانے والی اہم کمیٹی کا رکن بنادیا جائے لیکن اسے ناکامی ہوئی، بھارت کی خواہش تھی کہ جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کی کمیٹی کی صدارت اسے مل جائے جو نہیں ملی۔

اپنے بیان میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت چاہتا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے کمیٹی میں شامل ہوجائے کیونکہ اسے افغانستان کے معاملات سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے تاہم اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا، سنتی سب کی ہے لیکن حقائق کو جانتی ہے اور سمجھتی ہے، ہم نے بھارت کی جانب سے دہشتگردوں کی پشت پناہی کے ناقابل تردید ثبوت پی-5 سمیت سب کے سامنے رکھے ہیں جبکہ ہم بھارت کے عزائم کو بے نقاب کرتے رہیں گے، ہمارے اقوام متحدہ کی سطح پر، سلامتی کونسل کی سطح پر اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے ہیں اور ہم اپنے مفادات کے تحفظ اور دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

نو منتخب امریکی صدر سے متعلق انہوں نے کہا کہ جوبائیڈن 20 جنوری کو باقاعدہ طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، وہ بطور سینیٹر، بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں، وہ اس خطے سے واقت ہیں جبکہ وہ پاکستان بھی آچکے ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے جوبائیڈن سے متعلق مزید کہا کہ وہ یہاں کی بہت سی شخصیات سے شناسائی رکھتے ہیں، انہیں یہاں کے حالات و واقعات کا پورا ادراک ہے، ہم بھی ان کی سوچ اور اقدار کو سمجھتے ہیں اور جیسے ہی امریکا میں نئی انتظامیہ منصب سنبھالے گی ہم ان کے ساتھ رابطہ کریں گے جبکہ اس حوالے سے عنقریب نئے سیکریٹری آف اسٹیٹ انتھونی بلنکن کو خط بھی لکھوں گا۔

سیاسی معاملات پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک مختلف الخیال لوگوں کا منفی اتحاد ہے، جس کا مقصد موجودہ حکومت کو زق پہنچانا ہے اور اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے کرپشن کیسز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تاہم یہ جلد منتشر ہوجائیں گے۔

وزیر خارجہ کے مطابق پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن کے 2 بڑے اعلانات تھے، ایک یہ کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونا جبکہ دوسرا لانگ مارچ کرنا، تاہم جہاں تک استعفوں کا معاملہ ہے اس پر تو پیپلز پارٹی پہلے اور اب مسلم لیگ (ن) بھی پیچھے ہٹ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت، پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا لانگ مارچ پر بھی اتفاق نہیں ہے، جب 31 جنوری کی ڈیڈ لائن ختم ہو گی تو یہ مل بیٹھیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔

خیال رہے کہ حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر 2020 کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو اپنے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں