انٹارکٹیکا کی برفانی تہہ سے پراسرار جاندار دریافت

15 فروری 2021
— فوٹو بشکریہ برٹش انٹارٹک سروے
— فوٹو بشکریہ برٹش انٹارٹک سروے

1982 کی ایک مقبول ہولی وڈ فلم 'دی تھنگ' یا کچھ برسوں اسی کے ریمیک کو اگر آپ نے دیکھا ہو تو یاد ہوگا کہ اس میں سائنسدان انٹارکٹیکا میں ایک مہم کے دوران ایک پراسرار مخلوق کو برف کے اندر سے تلاش کرتے ہیں۔

یہ مخلوق بعد میں تباہی مچادیتی ہے، ویسے تو یہ سائنس فکشن خیال تھا مگر لگ بھگ 40 سال بعد اسی طرح سائنسدانوں نے ایک مخلوق کو دریافت کیا ہے، بس فرق یہ ہے کہ وہ کوئی خلائی یا خطرناک مخلوق نہیں۔

جی ہاں یقین کرنا مشکل ہوگا مگر انٹارکٹیکا میں سائنسسدانوں نے برف کی گہرائی میں سے ان عجیب جانداروں کو دریافت کیا ہے۔

اس برفانی براعظم میں برٹش انٹارٹک سروے کی ٹیم فلیچر۔ رونی آئس شیلف میں 4 ہزار میٹر گہرائی میں ایک چٹان کا تجزیہ کررہے تھے جب انہوں نے کچھ عجیب جانداروں کو دریافت کیا۔

سائنسدانوں کی اس تحقیق کے نتائج جرنل فرنٹیئرز ان میرین سائنس میں شائع ہوئے جو 2015 سے 2018 کے درمیان ہوئی تھی۔

اس تحقیق میں پہلی بار غیرمتحرک جانوروں کو دریافت کیا گیا تھا۔

تحقیقی ٹیم نے ان جانوروں کو مسام دار آبی جانداروں کے طور پر شناخت کیا تھا اور اس دریافت نے سائنسدانوں کو دنگ کردیا تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ دریافت ایک خوش قسمت حادثہ تھا جس نے مہم کی سمت کو بدل دیا اور ثابت ہوا ہے کہ اس براعظم کی آبی زندگی حیران کن حد تک خاص ہے۔

سمدندر کی گہرائی میں جانداروں کی دریافت غیرمعمولی نہیں مگر ایک برفانی تہہ کی 16 میل گہرائی میں اب تک زندگی کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تھے۔

یہ مانا جاتا ہے کہ جرثومے کی انٹارکٹیکا کی برفانی تہہ میں رہ سکتے ہیں کیونکہ وہاں جانداروں کے لیے غذا موجود نہیں۔

محقین نے اگرچہ 22 جانداروں کو دریافت کیا مگر اب بھی ان کے بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دریافت سے متعدد سوالات سامنے آتے ہیں، جیسے یہ کس طرح وہاں پہنچے؟ ان کی غذا کیا ہے؟ وہ کب سے یہاں موجود ہیں؟

ان جانداروں اور ان کے ماحول کے بارے میں جاننے کا عمل سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ ان کا برف کی بہت زیادہ گہرائی میں ہونا ہے۔

سائنسدان برفانی تہہ میں ڈرلنگ کے بعد ہی معلومات حاصل کرپاتے ہیں اور وہ اب تک محض ایک ٹینس کورٹ جتنے رقبے کا تجزیہ ہی کرسکے ہیں۔

یہ آئس شیلف 15 لاکھ اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں