3 بڑے بحری حادثات میں بچ جانے والی 'دنیا کی خوش قسمت ترین خاتون'

14 فروری 2021
وائلٹ جیسپ — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
وائلٹ جیسپ — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

109 سال قبل دنیا کی بحری جہازوں کی تاریخ کا ایک مشہور ترین اور بڑا حادثہ اس وقت پیش آیا جب 15 اپریل 1912 کو رات کے 2 بج کر 20 منٹ پر ٹائٹینک نامی جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا کر نیو فاﺅنڈ لینڈ کے ساحل کے قریب ڈوب گیا۔

اس بحری جہاز کو اس وقت کا پرتعیش اور محفوظ ترین جہاز بلکہ کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز قرار دیا گیا تھا مگر اس کے ڈوبنے سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر

اس اپنے عہد میں دنیا کا سب سے بڑا مسافر جہاز تھا جو اپنے پہلے سفر پر ساﺅتھ ہیمپٹن، برطانیہ سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا۔

یہ جہاز 882 فٹ لمبا اور 90 فٹ سے زیادہ اونچا تھا اور اس کا وزن 53 ہزار ٹن تھا۔

اس جہاز کے بارے میں تو آپ بہت کچھ پہلے سے جانتے ہوں گے اور اس زمانے میں اس طرح کے پرتعیش بحری جہاوں کا سفر بہت مقبول تھا کیونکہ ہوائی سفر اس زمانے میں دستیاب نہیں تھا۔

مگر ٹائٹینک میں سفر کرنے والی ایک خاتون کے بارے علم نہیں ہوگا جسے بیک وقت دنیا کی خوش قسمت اور بدقسمت ترین خاتون قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی جانیں : اس 'آسیب زدہ' ٹرین کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے؟

اس خاتون کو زندگی میں 3 بحری حادثات کا سامنا ہوا اور خوش قسمتی سے وہ ہر بار بچنے میں کامیاب رہیں۔

وائلٹ جیسپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بحری جہازوں کی میزبان یا اسٹیورڈ کے طور پر کیا تھا اور عجیب واقعات کے باعث ان کا نام تاریخ میں درج ہے۔

درحقیقت زندگی کے آغاز میں بھی وہ موت کے منہ میں پہنچ کر واپس لوٹنے میں کامیاب رہی تھیں۔

وائلٹ کی پیدائش 1887 میں ارجنٹائن میں ہوئی تھی اور بچپن میں تپ دق کی شکار ہوگئیں اور ڈاکٹروں نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بچی چند ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گی، تاہم وہ کرشماتی طور پر بیمااری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئیں۔

یہ اسرار بھی پڑھیں : وہ پراسرار بیماری جس نے لاکھوں افراد کو 'زندہ بت' بنادیا تھا

جب وہ 16 سال کی ہوئی تو والد کا انتقال ہوگیا۔

اس واقعے کے باعث ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہوا اور جب ان کی عمر 23 سال تھی تو انہوں نے اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بحری میزبان بننے کا فیصلہ کیا۔

کیرئیر کے آغاز میں حادثے کا سامنا

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ان کے کیرئیر کا آغاز رائل میل لائن کے ایک جہاز کے بحری میزبان کے طور پر ہوا۔

بعد ازاں وہ وائٹ اسٹار لائن نامی کمپنی کے پرتعیش جہاز آر ایم ایس اولمپکس کے لیے منتخب ہوگئیں جو 1911 میں سفر پر روانہ ہوا۔

جب وہ ستمبر 1911 کو جہاز کے پہلے سفر پر روانہ ہورہی تھیں تو ان کے اندر خوف موجود تھا کیونکہ موسم خراب تھا مگر وہ اس پر قابو پانے میں کامیاب رہیں۔

یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے

ان کے پہلے سفر کے دوران ہی آر ایم ایس اولمپکس ایک دوسرے جہاز ہاک سے ٹکرا گیا، مگر خوش قسمتی سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا اور دونوں ہی بحفاظت بندرگاہ پہنچنے میں کامیاب رہے۔

20 ویں صدی کے مشہور ترین حادثے میں بچنے میں کامیاب

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اولمپکس کے حادثے کے بعد وائلٹ کسی نئے جہاز کا حصہ بننے کے حوالے سے پرجوش نہیں تھیں مگر ساتھیوں کی حوصلہ افزائی پر وہ ٹائٹینک پر سوار ہوئیں۔

جس وقت ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکرایا تو یہ خاتون اپنے کیبن میں آرام کررہی تھیں، جس کے بعد وہ باہر نکل کر ڈیک پر گئیں اور متعدد خواتین اور بچوں کو لائف بوٹس پر سوار ہونے میں مدد کی۔

مزید پڑھیں : وہ خاتون جو ہر 24 گھنٹے بعد 26 سال پہلے کے 'عہد' میں پہنچ جاتی ہے

آخر میں وہ لائف بوٹ نمبر 16 پر سوار ہوئیں اور ایک گمنشدہ بچے کو اپنے ساتھ اٹھالیا۔

دیگر افراد کی طرح انہیں بھی اگلی صبح کارپیتھا نامی جہاز نے بچایا، مگر اس سے قبل 8 گھنٹے تک وہ سمندر کے وسط میں مدد کا انتظار کرتی رہیں اور بچہ پورے وقت گود میں رہا۔

بعد میں ایک خاتون نے وائلٹ کے پاس آکر بچے کوو اپنے ہاتھوں میں لے لیا مگر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

ایک اور حادثہ

ایم ایم ایچ ایس بریٹینکا — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ایم ایم ایچ ایس بریٹینکا — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

مگر یہ وائلٹ کی زندگی کا پہلا ایسا حادثہ نہیں تھا جب وہ ایک ڈوبتے ہوئے بحری جہاز سے بچنے میں کامیاب رہیں۔

ایک اور دلچسپ داستان پڑھیں : 8 چہروں والا وہ شخص جس نے لاکھوں ذہن گھما کر رکھ دیئے

ٹائٹینک کے حادثے کے 4 سال بعد یعنی 1916 یں وائلٹ برٹش ریڈ کراس کی نرس کے طور پر ایم ایم ایچ ایس بریٹینکا پر سفر کررہی تھیں، جو پہلے تو ایک مسافر جہاز تھا مگر جنگ عظیم اول کے دوران اسے ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

یہ جہاز بحیرہ ایجیئن میں سفر کررہا تھا جب یہ ایک جرمن یو بوٹ کی لگائے بارودی سرنگ کا شکار ہوکر ڈوب گیا۔

جب اچانک دھماکا ہوا تو وائلٹ نے پانی میں چھلانگ لگا دی مگر اس دوران ان کے سر پر زوردار چوٹ لگی جس سے کھوپڑی میں فریکچر ہوا اور بعد کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔

رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانی : اپنا ہاتھ کاٹ کر خود کو بچانے والے شخص کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان

مگر یہ علم دہائیوں بعد اس وقت ہوا جب وائلٹ نے ایک ڈاکٹر کے پاس جاکر شدید سردرد کی شکایت کی، اس وقت انہیں بتایا گیا کہ جہاز سے بچنے کے دوران لگنے والی چوٹ سے کھوپڑی میں فریکچر ہوا، جس کے اثرات اب وہ محسوس کررہی ہیں۔

اس حادثے میں خوش قسمتی سے جہاز میں موجود 1035 افراد کو بچالیا گیا تھا اور 30 ہلاک ہوئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حادثات کا شکار ہونے والے یہ تینوں جہاز ایک ہی کمپنی کے تھے اور ایک ہی کلاس کے سمجھے جاتے تھے۔

باقی کی زندگی

رائٹرز فائل فوٹو
رائٹرز فائل فوٹو

2 بحری جہازوں کے ڈوبنے اور ایک جہاز کے سنگین حادثے کے باوجود وائلٹ نے اپنی ملازمت کو چھوڑا نہیں بلکہ وائٹ اسٹار لائن کے لیے مزید چند سال کام کیا اور پھر ایک اور شپنگ کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔

انہوں نے اپنی زندگی کے 42 سال سمندر میں گزارے اور انہیں اکثر مس ان سنک ایبل بھی کہا جاتا تھا اور 1971 میں 83 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔

پراسرار کال

فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

63 سال کی عمر میں وہ ریٹائر ہوئی تھیں اور اس کے چند سال بعد ان سے ایک نامعلوم فرد نے فون پر رابطہ کرکے پوچھا کہ کیا وہ وہی خاتون ہیں جس نے ٹائٹینک کے ڈوبتے ہوئے ایک بچے کو بچایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : جیل توڑ کر فرار ہونے والے قیدیوں کا وہ واقعہ جو اب بھی ذہن گھما دیتا ہے

جب وائلٹ نے کہا کہ ہاں انہوں نے ہی ایسا کیا تھا تو اس فرد نے کہا 'میں ہی وہ بچہ ہوں ' اور پھر فون بند کردیا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت تک وائلٹ نے بچے کو بچانے کی کہانی کسی کو نہیں سنائی تھی بلکہ بعد میں اپنی سوانح حیات یں اس کا ذکر کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں