شمائلہ خان تعلیم کے اعتبار سے وکیل اور صنف اور ڈیجیٹل رائٹس سے متعلق محقق ہیں۔
شمائلہ خان تعلیم کے اعتبار سے وکیل اور صنف اور ڈیجیٹل رائٹس سے متعلق محقق ہیں۔

ایک باعزت زندگی گزارنے کے لیے صحت کی سہولیات تک رسائی ہمارا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس حقیقت کو ماننے کے باوجود طبقات، جنس، صنف، مذہب، نسل پرستی اور معذوری کی بنیاد پر اس حق کا انکار کیا جاتا ہے۔

صحت کا نظام خود اس عدم مساوات اور ظالمانہ نظام کو تقویت دیتا ہے جو پہلے ہی عدم رسائی اور ترجیحات کی صورت میں ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ طبّی تحقیق کا مرکز ہمیشہ مردانہ جسم ہی رہا ہے۔ طبّی تحقیقات اور ادویات کے تجربات میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے ساڑھے 3 کروڑ مریض ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خواتین پر اس انفیکشن اور اس کے لیے دی جانے والی ادویات مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں، اس کے حوالے سے ہونے والے اکثر تجربات میں مردوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

تحقیق کے مطابق صحت کے نظام کے اس ابتدائی مرحلے پر ہی خواتین کو نظر انداز کرنا اس نظام میں موجود صنفی تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ خواتین کی مخصوص ضروریات کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ شعور کی کمی نہیں بلکہ یہ ان کی انفرادیت چھیننے کی کوشش ہے جس کے باعث خواتین ہمارے اداروں اور نظام سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔

ہمارا معاشرہ عورت کے جسم کو تو سدھارنا چاہتا ہے لیکن ان ہی جسموں کو پہنچنے والی تکلیف پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ڈیان ہافمین اور انیتا تارزیان نے ’دی گرل ہُو کرایئڈ پین: اے بائیس اگینسٹ ویمن ان دی ٹریٹمنٹ آف پین‘ میں توجہ دلائی ہے کہ خواتین کو درد کی نامناسب تشخیص اور نامناسب علاج کا زیادہ سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

طبّی شعبے کی جانب سے خواتین کی تکلیف کو منظم طور پر کم اہمیت دی جارہی ہے، اس صورتحال کو اصطلاحاً ’جینڈر پین گیپ‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مردوں کے کنٹرول کے باعث خواتین کی آمد و رفت محدود رہتی ہے اور اسی وجہ سے ان کا کسی صحت کے مرکز تک جانا بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ صحت کی معیاری سہولیات کا مہنگا ہونا اور خواتین کے بجائے مردوں کے علاج کو ترجیح دینا بھی شامل ہے۔

ایک پدرشاہی گھرانے میں خواتین کی جگہ بھی ان کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا اثر صحت سے متعلق فیصلہ سازی کی کمی کی صورت میں ہوتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے خواتین سے کم ہی رائے لی جاتی ہے اور گھر میں ان کا کام بچے جننے تک محدود ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ایک عورت خود کو ایک ماں کے علاوہ کسی دوسرے روپ میں تصور ہی نہیں کرتی۔

اگرچہ پاکستان میں میٹرنل مورٹیلیٹی ریٹ فی ایک لاکھ پیدائشوں میں 276 (پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 7ء-2006ء) سے کم ہوکر 186 (پاکستان میٹرنل مورٹیلیٹی سروے) تک آچکا ہے لیکن یہ شرح اب بھی بہت زیادہ ہے۔ پاکستانی گھرانوں میں موجود صنفی امتیاز کی وجہ سے خواتین کو کم خوراک ملتی ہے اور وہ عموماً سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہیں۔

اسی وجہ سے صحت کی سہولیات کو حقوق نسواں کا مسئلہ سمجھتے ہوئے پاکستان کی نسائی تحریک کو اسے ایک ایسے معاملے کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ جہاں پدرشاہی ظلم و زیادتی کا انتہائی مظاہرہ ہورہا ہے۔ جنس کی وجہ سے صحت کی مناسب سہولیات سے انکار کسی کی زندگی اور موت میں فرق بن سکتا ہے۔

حقوق نسواں کی تحریک کا بنیادی مسئلہ صنفی تشدد ہے جو صحت سے متعلق بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والوں کو صنفی طور پر حساس ذہنی اور جسمانی صحت کی سہولیات تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم تشدد کے صدمے کو اپنے جسموں میں لیے پھرتے ہیں اور اس کے مظاہر بہت پیچیدہ اور کمزور کردینے والے ہوتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہوں میں موجود فرق بھی صنفی امتیاز کا مسئلہ ہے کیونکہ ان کے کام کو مناسب اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ ان کی اپنی اور جن لوگوں کے لیے وہ کام کرتی ہیں ان کی صنف ہے۔

صحت کی سہولیات کے حوالے سے حقوق نسواں کا نقطہ نظر ہمیں صحت کے نظام کے اندر پسماندہ طبقات کی ضروریات پر توجہ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ ان میں معذور افراد کے لیے صحت کے خصوصی مراکز کی تعمیر جیسے بنیادی کام بھی شامل ہیں۔

اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ حکومت ’ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ، 2018ء‘ کے تحت ’خواجہ سراؤں کے طبّی مسائل کو حل کرنے کے لیے طبّی نصاب پر نظرثانی اور ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے طبّی تحقیق میں بہتری‘ کے وعدے کو پورا کرے گی۔ حقوق نسواں کا نقطہ نظر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ اقدامات صحت کے نظام میں ایک اضافہ نہ ہوں بلکہ یہ صحت کے نظام کی بنیاد میں شامل ہوں۔

کورونا وائرس نے معاشرے میں موجود عدم مساوات کو بے نقاب کردیا ہے اور دنیا کے صحت کے نظام کی نزاکت کو بھی ظاہر کردیا ہے۔ پاکستان میں صحت کا بجٹ اب تک ایک فیصد کے آس پاس ہی ہے جو ریاست کی ترجیحات کا مظہر ہے۔ حقوق نسواں کا نقطہ نظر صحت کی سہولیات کے معاملے کو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ قرار دیتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی جانب سے اپنائے گئے نجکاری کے ماڈل کے برعکس ہر فرد کو صحت کی یکساں سہولیات فراہم کرے۔

آج عالمی یومِ خواتین کے موقع پر خواتین مظاہرے کر رہی ہیں۔ اس سال ان کے احتجاج کا بنیادی نکتہ صحت کے شعبے میں موجود بحران ہے۔ آج خواتین صحت کی سہولیات تک یکساں رسائی، پدرشاہی کی وبا سے آزادی اور اور ایک ایسے معاشرے میں رہنے کا مطالبہ کریں گی جہاں ہماری زندگیوں اور جسموں کی عزت کی جاتی ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں